صحافیوں پر تشدد، قتل اور معاشی قتل


آج ملک بھر میں یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ صحافی اپنے کارڈ، مائیک یا کیمرے کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے ملک میں بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جو صحافت کا لبادہ اوڑھے اس پیشے کو بدنام کر رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ ملک بھر میں ایسے کئی صحافی موجود ہیں۔ جن کی زندگی جدجہد پر مبنی ہے۔ جنہوں نے صحافت کی تعلیم حاصل کی، تحقیق میں اپنا نام پیدا کیا، اپنی زندگیاں اس شعبے کے لئے وقف کردیا اور ہر خبر عوام تک پہنچائی۔ ایسے صحافیوں کے لئے ہمیشہ سے ہی زمین تنگ کردینے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحافیوں پر تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔

پاکستان میں گزشتہ پانچ برسوں میں 26 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان صحافیوں کے قاتل ابھی تک قانون کی گرفت سے باہر ہیں۔ صحافیوں پر حملوں اور دیگر وارداتوں سے متعلق معلومات جمع کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک کے مطابق سن دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ کے درمیان 26 صحافیوں کا قتل ہوا۔ حال ہی میں صحافی اسد کھرل کو نا معلوم افراد نے تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ کچھ روزقبل میاں محمد نواز شریف کے سیکیورٹی کارڈ نے نجی چینل کے صحافی کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ سابق وزیر اعظم کے گارڈ کا صحافی پر تشدد کے بعد صحافی برادری نے شدید احتجاج کیا، صحافی تنظیمیں میدان میں آگئیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ جس کے بعد نوازشریف نے خود بھی گارڈ کے اس رویے کی شدید مذمت کی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی صحافی برادری کو یقین دلایا کہ ملزم کو قانون کے تحت سزا دلائی جائے گی۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی صحافی پر تشدد کا نوٹس لے لیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میڈیا ورکرز کا تحفظ یقینی بنائے گی۔

صحافی پر حملہ کرنے والے نواز شریف کے گارڈ کو گرفتار تو کرلیا گیا لیکن خدا جانے کہ اسے سزا بھی ملے گی یا نئے پاکستان میں بھی صحافی غیر محفوظ ہی رہیں گے کیونکہ صحافیوں کی جو معاشی حالت اس حکومت میں ہورہی ہو وہ ضیا دور میں بھی نہیں تھی۔

پوری میڈیا انڈسٹری اس وقت بحران کا شکار ہے۔ اشتہارات اور فنڈز نہ ملنے کے باعث اخبارات اور چینلز بند ہورہے ہیں اور لاکھوں صحافی بیروزگار ہورہے ہیں۔ دوسری جانب وزیراطلاعات فواد چوہدری نے حال ہی میں میڈیا یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے اسے بڑا کارنامہ تصور کیا جارہا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے یہ نوجوان آخر کیا کریں گے؟ میڈیا انڈسٹری تو پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق صرف شہر کراچی میں چھوٹی بڑی جامعات سے میڈیا کی تعلیم حاصل کرکے تقریبا 1000 سے زائد طلبا ء ہرسال فارغ ہورہے ہیں۔ جن کے لئے مارکیٹ میں کوئی ملازمت موجود نہیں، آخر ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کا کیا قصور؟ کیا حکومت ان کے روزگار کی ذمہ دار نہیں؟ تجاوزات کے خاتمے کے بعد جن لوگوں کا روزگار ختم ہوا۔ ان کے لئے آواز اٹھانے والا میڈیا، اپنے ساتھیوں کے حقوق کی بات کرنے سے کیوں کتراتا ہے؟

حکومت کوصحافیوں کے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لئے سنجیدگی سے اقدامات کرنا ہوں گے کیونکہ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، اس کو سہارا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

حکومت کو صحافیوں کی معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے جامع پالیسی بنانی ہوگی، اس صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے جامعات کو میڈیا کے شعبے میں مزید داخلے دینے سے روکنا ہوگا اور میڈیا اسٹڈیز کی جگہ ایسی فیلڈز متعارف کرانا ہوں گی جن کے حوالے سے مستقبل میں ملازمتیں فراہم کی جاسکیں۔ ساتھ ہی بیروزگار میڈیا ورکرز اور برسر روزگار میڈیا ورکرز کے مسائل کے حل کے لئے پلان تیار کرنا ہوگا۔ حکومت کو نئے اخبارات کو اجازت نامے دینا ہوں گے، شہری سطح پر چھوٹے ٹی وی چینلز کو بھی لائسنس جاری کرنا ہوں گے جس سے ملازمت کے مواقعے پیدا ہوں گے۔

دنیا بھر میں اس وقت سوشل میڈیا کی دھوم ہے۔ میڈیا کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کے لئے حکومتی سطح پر ویب ٹی وی، ای پیپر اور سوشل میڈیا رپورٹنگ کی ورک شاپس کا انعقاد کیا جانا چاہیے۔ میڈیا کے شعبے سے وابستہ افراد کو قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد ویب ٹی وی اور ای پیپر لائسنس جاری کیا جائے۔ اس سے نئے لکھنے والوں اور نئے صحافیوں کو آگے بڑھنے کا موقع بھی ملے گا اور شہری سطح پر ویب چینلز اور ای پیپرز کے مالکان اشتہارات حاصل کرسکیں گے۔ اخبارات کے کاغذ کی قیمت میں کمی کی جائے تاکہ چھوٹے اخبارات کم خر چ میں مستقل شائع ہوسکیں۔

حکومت میڈیا کو ریگولائز ضرور کرے لیکن ساتھ ایسے اقدامات بھی کیے جائیں جن سے صحافیوں کو معاشی قتل ہونے سے بھی روکا جاسکے اور ہر خبر عوام تک بھی پہنچ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).