یہودی ملا جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے توبہ شکن حسن سے پریشان


بات کچھ یوں ہے کہ مغرب سے متاثر جو افراد دن رات فیل مچاتے ہیں کہ پاکستانیوں کے ذہن میں ہر وقت جنس بھری رہتی ہے اور وہ عورت کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے، وہ خود دیکھ لیں کہ امریکہ اور اسرائیل میں رہنے والے یہودیوں کو تو انگیلا میرکل اور ہلیری کلنٹن کا ساٹھ سالہ حسنِ بلاخیز بھی بہکا سکتا ہے۔

فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو پر جب حملہ کیا گیا تو فرانس سے اظہار یکجہتی کے لئے دنیا بھر کے سربراہان ادھر گئے۔ اسرائیل کے نیتن یاہو بھی تھے اور فلسطین کے محمود عباس بھی۔ برطانیہ کے ڈیوڈ کیمرون تھے تو ترکی کے وزیراعظم احمد داؤداولو بھی۔ دنیا کے پچاس سے زیادہ ممالک کے لیڈروں نے پیرس میں یک جہتی کے اس مارچ میں شرکت کی۔ دنیا بھر کے میڈیا نے اسے نمایاں کوریج دی۔ اسرائیل کے قدامت پسند اخبار حاماویسار نے بھی اس مارچ کی خبر اور تصویر دی۔ اس نے بس ایک گڑبڑ کر دی۔ فرانسیسی صدر فرانکوئس ہالیند کے ساتھ کھڑی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اس نے فوٹو شاپ کا کرشمہ دکھا کر غائب کر دیا۔ غل مچ گیا کہ یہ کیا ملائیت ہے۔

یوال نوح ہراری نامی اسرائیلی مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حاماویسار نے اس خوف سے انگیلا میرکل کی تصویر نہیں لگائی کہ کہیں اس کے عابد و زاہد قارِئین اس 61 سالہ بڑھیا کی تصاویر دیکھ کر بہک نہ جائیں اور شہوانی خیالات ان کے دماغ پر قبضہ نہ جما لیں۔

حاماویسار کے ایڈیٹر بنیامین لپکن نے وضاحت کی کہ یہ اخبار فیملی کے لئے ہے اور تمام اہل خانہ کے لئے مناسب مواد ہی شائع کر سکتا ہے۔ کہنے لگے کہ کہ ”ایک آٹھ سالہ بچہ وہ نہیں دیکھ سکتا جو میں اسے دکھانے سے انکاری ہوں۔ ٹھیک ہے کہ بچہ انگیلا میرکل کی تصویر دیکھ کر خراب نہیں ہو گا، لیکن میں نے کہیں تو ایک لکیر لگانی ہے۔ “ مزید کہنے لگے کہ وہ مرنے والے افراد کی محترم یادوں کو بٹا لگانا نہیں چاہتے۔ کہنے لگے کہ ”اتنی زیادہ مقدس شے کے بارے میں بتاتے ہوئے اگر ایک عورت کی تصویر لگا دی جائے تو اس سے شہدا کی یادوں کی توہین ہو گی نہ کہ عورت کی“۔

ایک دوسرے اخبار حمودیہ کے ایڈیٹر نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ”ہماری ہزاروں سال قدیم روایات ہیں“۔ ایسا ہی معاملہ سنہ 2011 میں اس وقت ہوا تھا جب اسامہ بن لادن پر حملے کے وقت وائٹ ہاؤس کی تصاویر جاری کی گئی تھیں۔ نیویارک شہر کے علاقے بروکلین کے ایک قدامت پرست یہودی اخبار ”دی سائٹنگ“ نے اس میں سے 64 سالہ بڑھیا ہلیری کلنٹن اور ایک دوسری خاتون کی تصاویر فوٹوشاپ کر دی تھیں اور واضح کیا تھا کہ اس نے ایسا شرم و حیات کے یہودی قوانین کی وجہ سے مجبوراً کیا تھا۔ غالباً اسے بھی خوف ہو گا کہ ہلیری کلنٹن کے حسن سے اس کے شرم و حیا کے پتلے پارسا ریڈر بہک نہ جائیں۔ بعد میں غل مچا تو اخبار کو معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑ گیا۔

ہم نے نہایت محنت سے انگیلا کی جوانی کی تصاویر تلاش کیں۔ پتہ چلا کہ 17 برس کی عمر میں وہ فوجی یونیفارم پہننے کے باوجود قبول صورت دکھائی دیتی تھیں لیکن اس کے بعد ان کو ایک نائی ملا جس نے ان بالوں کا ایسا کباڑا کیا کہ آئندہ وہ کسی رخ سے بھی حسینہ نہ لگیں۔ غالباً سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کرتے ہوئے انہوں نے یہ سوچا ہو گا کہ کہیں وہ جنسی ہراسانی کا شکار نہ ہو جائیں اس لئے مسلسل چالیس پینتالیس برس سے اس انداز میں بال کٹوا رہی ہیں کہ کہیں سے بھی حسینہ نہ لگیں۔ بلکہ بکھرے بکھرے سے بال دیکھ کر تو یہ گمان ہوتا ہے کہ اپنی ہیئر کٹنگ وہ خود ہی کرتی ہیں۔

ایسی احتیاط کے باوجود ان کا توبہ شکن حسن یہودیوں کی راتوں کی نیندیں اڑائے ہوئے ہے۔ ایک طرف وہ اپنے آٹھ سالہ بچوں کو ان کی تصویر سے دور رکھ کر ان کے اخلاق کی حفاظت کر رہے ہیں اور دوسری طرف اپنے جوانوں کی فکر ان کو کھائے جا رہی ہے کہ انگیلا کی تصویر دیکھتے ہی وہ بے قابو نہ ہو جائیں۔ بہرحال ملک ملک کا رواج ہے صاحب۔ کیا کہہ سکتے ہیں۔

اسرائیلی مصنف یوال نوح ہراری ایک دلچسپ بات بتاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ قدامت پرست سائنا گاگز میں خواتین کو پردوں کے پیچھے چھپا کر مردوں سے الگ رکھا جاتا ہے تاکہ کوئی عبادت گزار شخص حادثاتی طور پر بھی ان کی شبیہ نہ دیکھ لے۔

اس کے بعد وہ حیران ہوتا ہے کہ اگر یہ یہودی روایت واقعی ہزاروں سال قدیم ہے اور الہامی قوانین کے مطابق ہے تو پھر اس بات کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے کہ جب آثار قدیمہ کے ماہرین نے مذہبی قوانین مشنہ اور تلمود کے وقتوں کے سائناگاگز کھود نکالے تو انہیں خواتین کو الگ تھلگ کرنے کا کوئی ثبوت نہ ملا۔ بلکہ ان کو ایسے خواتین کی تصاویر سے آراستہ فرش اور دیواریں ملیں۔ ان میں سے بعض خواتین تو کے جسموں پر محض کپڑوں کی تہمت ہی تھی۔ جن ربیوں نے مذہبی قوانین تلمود اور مشنہ لکھے وہ انہیں عبادت گاہوں میں مطالعہ اور عبادت کیا کرتے تھے۔ لیکن آج کل کے ربی اسے عبادت گاہ کے لئے توہین آمیز جانتے ہیں۔

بہرحال یہ یہودیوں کا آپسی معاملہ ہے کہ انہوں نے خواتین اور ان کی تصاویر کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔ ہم تو اسی بات پر خوش ہیں کہ اسرائیل کے یہودی ملا ایک چونسٹھ سالہ بڑھیا انگیلا میرکل کے توبہ شکن حسن سے پریشان ہوئے بیٹھے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar