پشتون تحفظ موومنٹ سے کون خوفزدہ ہے!


وفاقی کابینہ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے دو ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کی منظوری دی ہے۔ ان دونوں کو گزشتہ ماہ دوہا جانے والی ایک پرواز سے اتار لیا گیا تھا جس کے بعد سے اس معاملہ پر مباحث کا بازار گرم رہا ہے۔ تاہم وزارت داخلہ کے خصوصی سیکرٹری ڈاکٹر عامر نے انسانی حقوق سے متعلق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا ہے کہ کابینہ نے ان دونوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی منظوری دے دی ہے۔ نومبر میں بیرون ملک جانے سے روکنے کے بارے میں اس وقت ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایا تھا کہ ان دونوں ارکان اسمبلی کو عدالت کے حکم پر باہر جانے سےروکا گیا تھا۔ تاہم اب حکومت نے باقاعدہ طور سے نوجوان پشتونوں کی ایک تحریک کے دو منتخب لیڈروں کو بیرون ملک سفر کرنے سے روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے نمائیندے سینیٹ کمیٹی کو یہ بتانے سے قاصر رہے کہ ان دونوں کے نام کس بنیاد پر ای سی ایل میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس دوران پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی نے اپنا نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر ایک تحریک استحقاق جمع کروائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جس مقدمہ کو بنیاد بنا کر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے اس میں ان کی ضمانت ہوچکی ہے۔محسن داوڑ اور علی وزیر کا کہنا ہے کہ اگر ایف آئی آر میں نام ہونے کو بنیاد بنا کر ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا ہے تو پھر وزیر اعظم عمران خان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈالاجائے کیونکہ ان کے خلاف بھی متعدد مقدمات درج ہیں۔ داخلہ امور کے وزیر مملکت شہر یار آفریدی نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ ’جب ریاست کے اداروں کو چیلنج کیا جائے گا تو حکومت کوئی بھی اقدام کرنے سے دریغ نہیں کرے گی‘۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ ایک جگہ پر نفرت انگیز تقاریر کی گئی تھیں جس کی بنا پر ان دونوں افراد کے خلاف مقدمہ درج ہوا۔
حکومت کے اس اقدام سے ایک بار پھر یہ واضح ہو گیا ہے کہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ حکومت بنیادی حقوق، آئینی پوزیشن اور پارلیمنٹ کے احترام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر وہ فیصلہ کرنے پر آمادہ ہے جس کا اشارہ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے کیا جائے۔ ہفتہ عشرہ قبل ہی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے پی ٹی ایم کا ذکر کرتے ہوئے انہیں متاثرہ نوجوان قرار دیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہیں ریڈ لائن عبور کرنے سے باز رہنے کا انتباہ بھی دیا تھا۔ فوج کے ترجمان نے اگرچہ یہ اعتراف کیا تھا کہ جلسوں میں سخت باتوں سے فوج کو بطور ادارہ کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس کے باوجود بظاہر حکومت اور فوج دونوں ہی پشتون تحفظ موومنٹ کی مقبولیت اور قوت سے ہراساں دکھائی دیتے ہیں۔ اب اراکین قومی اسمبلی پر عائد کی جانے والی پابندی سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اگر کوئی گروہ یا تحریک قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے بھی اپنے حقوق کی بات کرتا ہے تو بھی اس کا راستہ روکنے سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ اس قسم کے ریاستی رویہ کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو نوجوانوں کی ایک ایسی تحریک سے خوفزدہ ہیں جو چند بنیادی انسانی حقوق کو پورا کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں اور جس تحریک کی قیادت تسلسل سے یہ کہتی ہے کہ وہ پاکستانی آئین و قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جد و جہد کرنا چاہتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں محسن داوڑ اور علی وزیر کی موجودگی بھی پی ٹی ایم کے اس عزم کا اظہار ہے۔
امور داخلہ کے نگران وزیر کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ ریاستی اداروں کو چیلنج کرنے والے عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے ۔ وہ جن عناصر کے بارے میں یہ بات کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں، ان سے ریاست کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اور جو عناصر ریاست کے وجود اور مفادات پر ضرب لگانے کا سبب بنتے ہیں ، انہیں کہیں نہ کہیں سے کسی نہ کسی کی سرپرستی حاصل رہتی ہے۔ حکومت کا موجودہ رویہ قومی مفاد اور سلامتی کے اس ایجنڈے سے منسلک دکھائی دیتاہے جو ملک کے عسکری اداروں نے طے کیا ہؤا ہے ۔ ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ ہو یا تحریر و تقریر کی آزادی کو سلب کرنے کی بات ہو، یہی حکمت عملی حکومت کے رہنما اصول کی حیثیت اختیار کرچکی ہے ۔ حالانکہ اس غیر مبہم پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان 47 برس قبل اپنے ایک حصہ سے محروم ہو چکا ہے بلکہ بلوچستان میں پائی جانے والی سیاسی بے چینی بھی اس صوبہ کے لیڈروں کی بات نہ سننے اور انہیں ذبردستی خود سے دور کرتے ہوئے، طاقت کے زور پر معاملات طے کرنے کی کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔
جب قومی مفاد اور ملکی سلامتی کے بارے میں کھل کر بات کرنے اور اس کے رہنما اصول متعین کرنے کے لئے مباحث کی حوصلہ شکنی کی جائے گی تو ان اصطلاحات کو جبر کی علامت بنتے دیر نہیں لگتی۔ یہ تجربہ سابقہ مشرقی پاکستان میں ناکام ہو چکا ہے۔ بلوچستان میں اس پالیسی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تلخیاں دور کرنے میں دہائیاں صرف ہوں گی۔ اب حال ہی میں وفاق کا حصہ بننے والے قبائلی علاقوں کی ایک مقبول عوامی تحریک کو جس کی قیادت نوجوان کررہے ہیں ، مسلسل مسترد کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسی صورت میں سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ کیا پاکستان اور اس کے کارپرداز اپنی غلطیوں سے کبھی سبق نہیں سیکھیں گے۔
یہ واضح ہونا چاہئے کہ پارلیمنٹ کے علاوہ وہ کون سے ادارے یا پلیٹ فارم ہیں جہاں یہ طے کیا جاتا ہے کہ کون سی بات ریاست کے مفاد کے خلاف ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں شہر یار آفریدی کا یہ مؤقف کمزور ہے کہ ان کے جلسوں میں کی جانے والی بعض تقریروں سے ریاست چیلنج ہوتی ہے۔ کیا وہ بتا سکتے ہیں کہ ریاست آخر اتنی کمزور کیوں ہے کہ وہ نہتے اور پرجوش نوجوانوں کے گروہ سے خطرہ محسوس کررہی ہے۔ ریاست کو یہ خطرہ ان نوجوانوں یا پشتون تحفظ موومنٹ کی سیاسی مقبولیت سے لاحق نہیں ہے بلکہ ریاست اپنے ہی لوگوں سے برسر پیکار رہنے کی حکمت عملی کی وجہ لرزہ براندام ہونے لگتی ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ اسی سال مئی میں شروع کی گئی تھی اور اس کا آغاز جنوری میں کراچی میں نقیب اللہ محسود نام کے ایک 27 سالہ نوجوان کی پولیس مقابلہ میں ہلاکت کے بعد ہؤا تھا۔ اس قتل میں سندھ پولیس کا بدنام زمانہ ایس ایس پی پولیس راؤ انوار ملوث تھا۔ وہ نقیب محسود کے قتل کے بعد اپنا نام سامنے کے بعد لاپتہ ہوگیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے سو موٹو لینے اور چیف جسٹس کی یقین دہانیوں کے بعد راؤ انوار نے انتہائی ڈرامائی انداز میں گرفتاری دی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس کے بعد از خود کارورائی کی بنیاد پر قائم مقدمہ کو ختم کرتے ہوئے اس قتل کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو خود مختاری سے کام کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم جولائی میں راؤ انوار کو ضمانت پر رہا کردیا گیا اور اس کے خلاف اب تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ نقیب محسود کیس میں راؤ انوار کا نام سامنے آنے کے بعد تواتر سے یہ خبر پھیلائی گئی تھی کہ وہ سابق صدر آصف زرداری کا خاص آدمی ہے اس لئے اس پر کوئی آنچ نہیں آسکتی۔ اب آصف زرداری خود اپنے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائیوں سے جان چھڑانے کے لئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں لیکن راؤ انوار کو کوئی ’اندیشہ ‘ لاحق نہیں ہے۔
پی ٹی ایم کے بنیادی مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، قبائیلی علاقوں میں بارودی سرنگوں کی صفائی اور فوجی کنٹرول چوکیوں کے خاتمہ کے علاوہ پولیس مقابلہ میں نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے پر راؤ انوار کو سزا دلوانا شامل ہے۔ اس قتل کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مذمت کی تھی اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی سو موٹو لیتے ہوئے اس سانحہ کے سارے حقائق سامنے لانے اور مجرموں کو سزا دینے کا حکم دیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس سال 18 جنوری کو اپنے ایک ٹویٹ میں نقیب اللہ محسود کے قتل کی مذمت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ پنجاب پولیس کے بہیمانہ انکاؤنٹرز کے دستاویزی شواہد موجود ہیں۔ لیکن سیاسی اثر و رسوخ میں کام کرنے والی سندھ پولیس بھی اس سے بہتر نہیں ہے۔ آج ایس پی (راؤ انوار) نے نقیب اللہ محسود نام کے ایک نوجوان کو کراچی میں قتل کردیا۔ اسے 7 جنوری کو اٹھایا گیا تھا اور آج اسے پولیس مقابلہ میں مار دیا گیا۔ انتہائی قابل مذمت‘۔ اب عمران خان خود بااختیار وزیر اعظم ہیں لیکن پشتون تحفظ موومنٹ کا یہ سادہ سا مطالبہ قبول ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیتے کہ قاتل کو سزا دی جائے۔ بلکہ حکومت اس تحریک کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے اور دھمکیاں دینے میں مصروف ہے۔
عمران خان کو خود بھی سوچنا چاہئے اور اپنے ہمراہ ایک پیج پر موجود دوسری طاقتوں سے بھی استفسار کرنا چاہئے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کا کون سا مطالبہ غیر آئینی ہے ۔ وہ پر امن جد و جہد کا اقرار و اعلان کرتے ہیں۔ لیکن ریاستی نمائیندے ان نوجوانوں کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں مشتعل کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ کیا یہ پالیسی کسی بھی طرح قومی مفاد اور سلامتی کا تحفظ کرنے کا باعث ہو سکتی ہے ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali