پاکستانی کرکٹ کا سیکنڈ اننگز فوبیا اور ایک کوچ


2007 میں پاکستان آئی ساؤتھ افریقہ کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ ون ڈے سیریز کے پانچویں اور فیصلہ کن معرکے میں پاکستانی ٹیم 234 رنز کے ہدف کے تعاقب میں 198 / 4 پر بیٹنگ کر رہی تھی اور ابھی دس اوورز کا کھیل باقی تھا۔ پاکستان کی اس مضبوط پوزیشن کو دیکھتے ہوئے ساؤتھ افریقہ کے کیمپ میں شکست تسلیم کرنے کے واضح آثار دکھائی دینے لگے تھے لیکن پھر اچانک سے پانسہ پلٹ گیا اور اگلے سات اوورز میں صرف 21 رنز کے بدلے پاکستان کے چھے بیٹسمین غیر ذمہ داری سے آؤٹ ہوتے ہوئے 14 رنز سے وہ میچ ہار گئے۔

پاکستانی ٹیم کی اس غیر متوقع شکست کو تسلیم کرنا جہاں شائقین کے لیے بہت مشکل تھا وہاں اتنا ہی حیران کن اس وقت کے جنوبی افریقی کرکٹ ٹیم کے کوچ کے لیے بھی تھا جو شاید اپنی شکست تسلیم کرچکے تھے۔ بہت عرصے بعد ان سے ایک بیان بھی منسوب ہے کے ایک ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس میچ کے فکس ہونے پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا تھا لیکن وہ خود اس قسم کے کسی بھی بیان کی نفی کرتے رہے۔

خیر اس بات سے قطع نظر کے اس کوچ نے کیا واقعی الزام لگایا تھا یا یہ اس سے منسوب من گھڑت خبر تھی وقت نے ثابت کیا کے پاکستانی بیٹنگ کا یوں اچانک لڑکھڑا جانا بھی کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ دنیا کی ہر ٹیم میں کچھ خوبیاں ہوتی ہے اور کچھ خامیاں اور ہماری طاقت ہماری باؤلنگ جب کے کمزوری بیٹنگ ٹھیری۔ پہلے بیٹنگ آجائے تو پھر بھی پاکستانی بلے بازوں کی کارکردگی قابل تعریف بھی رہی لیکن جہاں بات سیکنڈ اننگز کی ہورہی ہو تو ہماری ٹیم کی یہ مشکل گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی رہی ہے۔

خاص طور پر جب پاکستانی بیٹسمین کسی ہدف کا تعاقب کررہے ہوں تو بڑا ہدف تو دور ایک نارمل ہدف کو پورا کرنا بھی گویا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوجاتا ہے اور ہم تب ہی میچ جیت پاتے ہیں جب کوئی ایک بیٹسمین کسی دن اچانک سے غیر معمولی کارکردگی دکھا دے جو کم ہی ہوتا ہے۔ بڑی ٹیموں کے خلاف تو ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ میں 250 یا اس سے زائد رنز کا حصول پاکستان کے لیے تقریباً ناممکن ہی ہوجاتا ہے اور پاکستانی ٹیم شروع کے دس پندرہ اوورز میں ہی ہتھیار ڈال دیتی ہے۔

ہم اکثر بیٹنگ کے لیے ساز گار وکٹوں پر ایسے جیتے جتائے میچ ہارتا دیکھنے والے ششدر رہ گئے جو کرکٹ کے پنڈتوں کے نزدیک پاکستانی ٹیم کو ہارنے نہیں تھے۔ یہی وجہ رہی کے ہمارے پاس بیک وقت وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، عبدالرزاق، اظہر محمود، ثقلین مشتاق پھر عمر گل، محمد آصف، سعید اجمل، آفریدی جیسا دنیا کا بہترین باؤلنگ اٹیک ہوتے ہوئے بھی ہم وہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے جس کی پاکستان ٹیم مستحق تھی۔

اسی بیٹنگ کی کمزوری کے سبب ہم اپنے سپر اسٹارز کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے بھی 2003 اور 2007 کے عالمی کپ میں پہلے راؤنڈز سے ہی آگے نہ بڑھ پائے۔ دنیائے کرکٹ میں اکثر میچ ہارتی ہوئی ٹیمیں اپنی فائیٹنگ اسپرٹ کی طاقت سے مخالفوں کے حلق سے فتح کو چھینتے ہوئے دیکھی گئی ہیں لیکن پاکستان اور بھارت میں مخالف ٹیم کی اچھی کارکردگی کے باوجود کرکٹ کے شائقین شکست قبول کرنے کے بجائے واویلا مچانا شرع کردیتے ہیں حالانکہ ہار تو کھیل کا ہی حصہ ہوتی ہے اور یہی کھلاڑی ہمیں خوشیاں بھی دیتے ہیں مگر جب ایک ٹیم خود ہی اپنی ایک کمزوری کے سبب جیتے ہوئے میچز ہارنے لگے تو واقعی صورتحال خاصی مضحکہ خیز اور توجہ طلب بن جاتی ہے۔

1997 میں فیصل آباد میں ساؤتھ افریقہ کے خلاف ہی ٹیسٹ سیریز کے فیصلہ کن معرکے میں پاکستانی ٹیم کو 146 رنز کا ہدف ملا اور اپنی پہلی اننگ میں 300 رن بنانے والی پاکستانی ٹیم جواب میں 92 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ 2009 میں سری لنکا کے خلاف 168 کے تعاقب میں 117، 2010 میں آسٹریلیا کے خلاف پہلی اننگز میں 300 سے زائد رنز بنانے کے باوجود 176 رنز کے ہدف کے جواب میں 139، پچھلے سال ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم کے خلاف 187 کے جواب میں 81 اور سری لنکا کے خلاف 136 کے معمولی ٹارگٹ کا تعاقب کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم 114 پر یوں ڈھیر ہوئی کہ اپنے ہی ہوم گراؤنڈ پر سیر یز بھی ہار گئی حالانکہ سری لنکا وہ واحد ٹیم ہے جس کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ بہت اچھا ہے اورٹیسٹ کرکٹ میں اپنا سب سے بڑا مجموعہ بھی پاکستان نے سری لنکا کے خلاف ہی چیزکیا ہے۔ ان میچز کو اگر اتفاق سمجھ لیا جائے تو بھی ٹیسٹ کرکٹ میں ٹاپ رینک ٹیمز کے خلاف پاکستان نے کتنی بار اور آخری بار کب 200 سے زائدرنز کا ہدف کامیابی سے عبور کیا اس کے لیے سالوں پیچھے جانا ہوگا۔

موجودہ دور کی اس تیز رفتا ر کرکٹ میں جب ٹی ٹوئنٹی میں 190 / 180 رنز بنتے اور چیز ہوجاتے ہیں وہاں ون ڈے کرکٹ میں آٹھویں نمبر تک بیٹنگ لائن رکھنے کے باوجود پاکستان کے لیے 220 سے 240 رنز تک کے اہداف کے حصول کا مارجن ففٹی ففٹی رہا ہے اور جہاں ٹارگٹ 250 یا اس سے زائد ہوا وہاں کھلاڑیوں کی باڈی لینگویج سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کے ستر فیصد شکست تسلیم کرلی گئی ہے۔ اگر پاکستانی ٹیم کسی ٹوٹل کا دفاع کررہی ہو تو ہمارے کھلاڑی جان مار دیتے ہیں لیکن اگر سیکنڈ اننگ میں بڑے ہدف کا تعاقب ہوتو پاکستانی بلے بازوں کی گھبراہٹ اور بے یقینی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے جو اگر آؤٹ ہونا شروع ہوں تو، تو چل میں آیا کی گردان شروع ہوجاتی ہے۔

ایک اچھی پارٹنر شپ کے بعد اگر ایک بیٹسمین آؤٹ ہوجائے تو اکثر یہ ہوتا ہے کے اس کے ساتھ سیٹ ہوا بیٹسمین بھی فوراً ہی وکٹ تھرو کردیتا ہے۔ پاکستان کے کئی میچز تو ایسے بھی ہیں جب باؤلرز نے ہی بیٹنگ کرکے بھی میچ جتائے۔ جیسے کہ چیمپئنز ٹرافی 2017 کے اہم میچ میں سری لنکا کے 237 رنز کے ہدف کے جواب میں پاکستان کی 74 رنز پر پہلی وکٹ گرنے کے بعد 162 رنز پرسات کھلاڑی آوٹ ہوگئے تھے اس موقعے پر نویں نمبر پر آنے والے محمد عامر نے 28 رنز ناٹ آؤٹ اسکور کرکے جیت کی راہ ہموار کی۔

یاد رہے محمد عامر اور سعید اجمل دسویں وکٹ پر دنیا کی دوسری بڑی پارٹنر شپ کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں جو انہوں نے 2009 میں ابو ظہبی میں نیوزی لینڈ کے خلاف ون ڈے سیریز کے فائنل میں اس وقت بنائی جب پاکستانی ٹیم 211 رنز کا ہدف چیز کررہی تھی اور 47 رنز پر پہلی وکٹ گرنے کے بعد 101 پر نو کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے۔ اس موقعے پر دونوں نے آخری وکٹ پر 103 رنز جوڑ کے بتا دیا کے اس وکٹ پر بیٹنگ مشکل نہیں اور وہ میچ پاکستان صرف سات رنز سے ہارا۔

ایک وقت تو وہ بھی آیا جب ٹاس ہارنے کے بعد مسلسل شکستوں پر شعیب اختر نے ایک پروگرام میں پاکستان ٹیم پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کے ”اب تو یہ حال ہوگیا ہے کے پاکستان ٹاس ہارے گا تو میچ نہیں جیتے گا، پاکستان کی بیٹنگ ہاتھ کھڑے کردے گی کہ بھائی ہم نے اسکور نہیں چیز کرنا تسی جو مرضی ساڈے نال کرلو، ٹاس جیتو گے تو میچ بناکے دیں گے تھوڑا بہت۔ “

یہی وجہ ہے کے اب دیگر کھلاڑی بھی کھلے اور دبے الفاظ میں اس بات کو تسلیم کرکے اس معاملے پر تنقید کرنے لگے ہیں کے ٹیسٹ اور ون ڈے کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی چیز نگ کی قابلیت مزید خراب ہوتی جارہی ہے لیکن اس کا حل کیا ہوگا یہ کوئی نہیں بولتا۔ کیونکے ابھی پھر وہی ہوا جب نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں 176 رنز کا ٹارگٹ ملنے کے بعد پاکستان کا اسکور 129 / 3 تھا۔ اسد شفیق اور اظہر علی سیٹ بیٹنگ کررہے تھے اور میچ جیتنے کے لیے صرف 47 رنز کی ضرورت اور سات وکٹیں باقی تھیں لیکن تھوڑی دیر میں وہی ریت دہرائی گئی اور پاکستان محض چار رنز سے یہ میچ ہار گیا۔

یہ ہار بھی پاکستانی شائقین کے لیے غیر متوقع تھی خاص طور پر اس کوچ کے لیے جو سالوں پہلے مخالف کوچ کی حیثیت سے پاکستان کو اسی طرح ساؤتھ افریقہ کے خلاف ایک جیتا ہوا میچ ہارتے دیکھ کر حیران رہ گیا تھا لیکن تب اور اب میں بڑا فرق یہ تھا کے وہ کوچ اب قسمت سے پاکستان ٹیم کا ہیڈ کوچ ہے۔ جی ہاں مکی آرتھر، جنہیں یہ میچ ہارنے پر بڑی مایوسی ہوئی اور انہوں نے چھوٹے ہدف کے تعاقب میں بھی پاکستانی ٹیم کی ناکامیوں پر افسوس کا اظہار کیالیکن امید ظاہر کی کے ان کی ٹیم اس ہار سے سبق لے گی۔

جب کے معروف مبصر رمیز راجہ نے پاکستان کی شکست پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کے ”رنز چیز ہو اور پاکستان میچ جیت جائے ایسا ہوتا ہوا لگتا نہیں ہے، باوجود اس کے کہ کین ویلیمسن کی کپتانی اور اعجاز پٹیل کی بالنگ شاندار تھی لیکن اس میں بیٹنگ کی ٹیکنیک سے زیادہ مائنڈ کا عمل دخل ہے کیونکے دوسری ٹیمز کو یہ پتا ہے کے ٹارگٹ کو یہ ہوّا سمجھتے ہیں اور کہیں نہ کہیں یہ بلینک اور بلاک ہوجاتے ہیں ذہنی اعتبار سے۔ “

بدقسمتی سے سیریز کے فیصلہ کن معرکہ میں بھی ٹاس ہارنے کے بعد پاکستانی بالرز نیوزی لینڈ کو 280 رنز کا ہدف دینے سے نہیں روک پائے اور پاکستانی بیٹسمین آخری روزاپنے ہی میدانوں پر اس ہدف کے بوجھ تلے 156 رنز پر ڈھیر ہوگئے اور یوں نیوزی لینڈ 49 سال بعد پاکستان کو اسی کے گھر میں شکست دینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس شکست کے بعد بہت سے تجزیہ کاروں نے پاکستان کے فورتھ اننگ فوبیا پر افسوس کرتے ہوئے کہا کے پاکستان ٹیم کو اب کوچ سے زیادہ کسی سائیکٹرسٹ کی ہی ضرورت ہے۔

لیکن یہ محض تنقید برائے تنقید ہی نہیں ہے اگر ایک روزہ کرکٹ کے یہ ریکارڈ ز دیکھے جائیں تو جنوری 2009 سے دسمبر 2018 تک 54 بار ایسا موقع آیا جب پاکستانی ٹیم کو 250 یا اس سے زائد رنز کا ہدف ملا اور صرف 11 بار ہی ایسا ممکن ہوپایا جب پاکستانی بیٹسمین مطلوبہ ہدف حاصل کرپائے ہوں جب کے 43 میچز میں پاکستانی ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اورجیتے گئے گیارہ میچز میں بھی آدھی تعداد سری لنکا کے علاوہ بنگلہ دیش، افغانستان اور زمبابوے کے کمزور باؤلنگ اٹیک کے خلاف ہے، یاد رہے کے پاکستانی ٹیم 250 سے کم رنز کا تعاقب کرتے ہوئے کتنی میچز ہاری اس کی تعداد الگ ہے۔

اسی بدولت اب غیر ملکی مبصرین بھی پاکستانی بیٹنگ لائن کا ٹارگٹ دیکھ کر ہی ہار مان لینے کی کمزوری پر تنقید کرنے لگے ہیں جب کے باؤلنگ کا لوہا پوری دنیا مان رہی ہے۔ یہی وجہ ہے جو آج ہم بلے بازوں کی دنیا یعنی ٹی ٹوئنٹی میں تو نمبر ون کی پوزیشن پر براجمان ہیں جہاں محدود اوورز کے سبب ہماری بیٹنگ بھی کچھ ہمت دکھارہی ہے لیکن زائد اوورز کی کرکٹ میں جہاں ٹیموں کے پاس کم بیک کا وقت ہوتا ہے وہاں اب ہمیں ایک آدھ ہی کھلاڑی اور قسمت پر بھروسا کرنا پڑ رہا ہے کے پاکستان ٹیم پہلے ٹاس جیت لے اور اگرپہلے باؤلنگ آ جائے تو بیٹنگ وکٹ پر بھی ایسا آسان ہدف ملے جو ہمارے بلے باز بغیر گھبراہٹ کے پورا کرسکیں مگر یہ چیز پاکستانی باؤلنگ لائن پر ہی پریشر ڈالنے کا باعث بن رہی ہے۔

پچھلے دس سالوں میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف جو آخری 19 ون ڈے میچز کھلیں ہیں ان میں سے صرف 5 میں ہی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے 24 میچز میں سے بھی 5، نیوزی لینڈ کے خلاف 29 میں سے 7 میں فتح جب کے تین میچز غیر نتیجہ رہے۔ ساؤتھ افریقہ کے خلاف 21 میں سے 9، جب کے روایتی حریف بھارت کے خلاف کھیلے گئے 14 میچز میں سے بھی قومی ٹیم نے صرف 5 میچز ہی جیتے ہیں جو ان تمام ٹاپ رینک ٹیمز کے خلاف پاکستان کا کل پینتیس فیصد بھی نہیں ہے۔

ایک اسپورٹس مین کا ملک کا وزیر اعظم بننا کیا دنیا بھر کے میدانوں میں پاکستان کی کامیابی اور قومی پرچم کی سربلندی کا سبب بن پائے گا، کیا پھر سے کرکٹ سمیت ہاکی، اسکواش اور دیگر کھیلوں میں پاکستان کا سنہری دور واپس آسکے گا کیونکے تبدیلی کے چاہنے والے اب کھیل کے میدانوں میں بھی بہتری کی آس لگائے وزیر اعظم کوبڑی امیدوں سے تک رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).