بدیسی ادب: انگوری شکنجہ


The Winepress

A short story by Josef Essberger

ترجمہ: حبیب شیخ

چارلس ڈی گریوز Charles de Gruse جب بھی پیرس میں میز بانی کرتا تو اپنے غیر ملکی مہمانوں سے یہی کہتا ”آپ کو ایک اعلی ریڈ وائن red wineسے لطف اندوز ہونے کے لئے فرانسیسی ہونا ضروری نہیں ہے، لیکن ایک عمدہ وائن کی پہچان کے لئے فرانسیسی ہونا ضروری ہے“ وہ یہ مسکرا کر کہتا تاکہ اس کے مہمان اس کی بات سے ہتک نہ محسوس کریں۔

فرانسیسی سفارتی عملے میں زندگی بھر کام کرنے کے بعد، کاؤنٹ چارلس ڈی گریوز اپنی بیوی کے ساتھ قوے وولٹیر میں ایک خوبصورت مکان میں رہتا تھا۔ وہ ایک قابل ِپسند شخص تھا، پر وضع بھی اور اپنی میزبانی اور دل نوازی کے لئے مشہور تھا۔

*****

اس شام کے مہمان جو تمام یورپی تھے اور سب اس بات پر اتّفاق کر رہے تھے کہ امیگریشن یورپ کے مسائل کی جڑ ہے۔ چارلس ڈی گریوز نے کچھ بھی نہیں کہا۔ اس نے حسبِ عادت اس طرح کے خیالات سے اپنی ناپسندیدگی کو چھپائے رکّھا اور ویسے بھی اس کو ان مہمانوں سے کوئی خاص انسیت نہیں تھی۔

اسٹیک کے ساتھ سرخ بورڈیو Bordeaux کا پہلا دور چل رہا تھا۔ ایک مہمان نے چارلس ڈی گریوز کی طرف دیکھ کر کہا۔

”دیکھو، چارلس، یہ سیدھا سادہ حساب ہے۔ نسل یا رنگ کے ساتھ اس کا کوئی تعلّق نہیں۔ تم کو اس طرح کے مسائل کا کافی تجربہ ہے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ “

”ہاں، جنرل، بہت واسطہ پڑتا رہا ہے! “

ایک اور لفظ کہے بغیر، چارلس ڈی گریوز نے اپنے گلاس کو اٹھایا او ر ناک کے پاس لے جا کر گہری سانس سے اس کو سونگھا۔ ایک لمحے کے بعد اس نے پر آب آنکھیں اوپر اٹھائیں۔

” یقیناً ایک صحیح مکمل بورڈیو، “ اس نے گرم جوشی سے کہا، ”شرابوں کی شراب۔ “

چاروں مہمانوں نے اپنے اپنے گلاس روشنی میں لا کر وائن کی سرخی کا جائزہ لیا۔ انہوں نے اتفاق کیا کہ انہوں نے ابھی تک اس سے بہتر وائن کو نہیں چکھا ہے۔

دریائے سین کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سفید روشنییاں جلنا شروع ہوگئی تھیں۔ اب یہ پارٹی خرگوش کی ڈش سے لطف اندوز ہو رہی تھی جس کے ساتھ وائن بھی زیادہ پی جا رہی تھی۔

گلاسوں میں دوبارہ وائن انڈیلنے کے دوران چارلس ڈی گریوز نے سوالیہ انداز سے کہا، ”آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ہیں جو جس شراب کو پیش کرتے ہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے؟ “

”واقعی؟ “ جرمن سیاست دان مہمان نے کہا۔

”ذاتی طور پر، اس سے پہلے کہ میں بوتل کھولوں، مجھے جاننا ضروری ہے کہ اس میں کیا ہے۔ “

”لیکن کس طرح؟ کسی کو کیسے یقین ہوسکتا ہے؟ “

”میں ان انگوروں کے باغات کے اردگرد گھومتا پھرتا ہوں جن سے وہ شراب بنی۔ مثلاً بورڈیو کے اس مقام کو لے لو جہاں میں جایا کرتا تھا۔ وہاں میری شراب بنانے والوں کے ساتھ جان پہچان ہو گئی۔ یہ ہے جاننے کا طریقہ کہ آپ کیا پی رہے ہیں۔ “

دوسرے سیاست دان نے کہا ”ہاں، شراب کی نژادکے بارے میں جاننا ضروری ہے، چارلس۔ “

ولندیزی مہمان نے کچھ نہیں بولا تو چارلس ڈی گریوز نے اپنی بات جاری رکھی ”ایک شخص ہمیشہ اپنی شراب کے پس منظر کے بارے میں کہانی سناتا تھا۔ اس میں سے ایک کہانی میرے لئے بھی غیر معمولی کہانی تھی۔ ہم اس کے کشیدہ خانے میں مختلف مشروبات چکھتے ہوئے ایک صندوق کے پاس پہنچے جسے دیکھ کر اس کے ماتھے پر تیوریاں آگئیں۔ پھر اس نے پوچھا کہ کیا میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ ریڈ بروڈیو دنیا کی سب سے بہترین وائن ہے۔ بے شک میں نے اتفاق کیا۔ پھر اس نے ایک غیر معمولی بات کہی۔

”اس صندوق کی وائن ۔ “ اس کی آنکھیں پر نم ہو گئیں ”دنیا کی تمام ونٹیج vintageمشروبات سے بہتر ہے لیکن اس کی زندگی کا آغاز یہاں نہیں ہوا جہاں اس کے لئے انگور اگائے گئے بلکہ ایک بہت دور جگہ سے ہوأ۔ “

چارلس ڈی گریوز ایک منٹ کے لئے رکا تاکہ دیکھ لے کہ اس کے مہمانوں کی صحیح خدمت ہو رہی ہے۔

”پھر؟ “ ولندیزی نے لقمہ دیا۔

چارلس ڈی گریوز اور اس کی بیوی نے ایک دوسرے کو گھور کر دیکھا۔

”پوری کہانی سناؤ ان کو، مائی ڈیر۔ “ بیوی بے تابی سے بولی۔

چارلس ڈی گریوز آگے کی طرف جھکا، وائن کی ایک اور چسکی لی، اور اپنے ہونٹ رومال کے کنارے سے خشک کئے ۔ پھر اس نے کہانی سنانا شروع کی۔

اکّیس سال کی عمر میں، پیئر، یہ نام تھا جو اس کے باپ کے کشیدہ خانے میں کام کرنے والوں نے اس کو دیا تھا، اسے اپنے والد کی طرف سے کچھ وقت مڈغاسکر میں اپنے چچا کے ساتھ گزارنے کے لئے بھیج دیا گیا تھا۔ دو ہفتے کے اندرہی وہ ایک مقامی لڑکی فنیری، یا ملاگسی زبان میں ”خواہش“ کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔ تم اسے الزام نہیں دے سکتے۔ سترہ برس کی عمر میں فنیری کی خوبصورتی عروج پر تھی۔ ملاگسی سورج کی روشنی میں اس کی گہری سانولی جلدسونے کی طرح چمکتی۔ اس کے سیاہ کمر لمبائی بال جو اس کے گالوں کوچھوتے ہوئے لٹکتے، اور جھیل کی طرح گہری آنکھیں۔ ان دونوں کے لئے ایک دوسرے کی محبّت زندگی کا ایک اچانک پر حسین موڑ تھا۔ پانچ ماہ کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔ فنیری کاکوئی خاندان نہیں تھا، لیکن شادی کے لئے پیئر کے والدین فرانس سے آ گئے تھے، اگرچہ انہوں نے اس کی فنیری سے شادی کو پسند نہیں کیا۔ شادی کے بعد تین سال نو جوان جوڑے نے مڈغاسکر کے جزیرے میں بہت خوشی سے گزارے۔ پھر، ایک دن فرانس سے ٹیلی گرام آیا کہ پیٔر کے والدین اور اس کابھائی کار کے ایک حادثے میں انتقال کر گئے ۔ پیئر نے تدفین میں شرکت کے لئے اگلی پرواز لی اور رسومات سے فارغ ہو کرباپ کے وائن بنانے کے کاروبار کو سنبھالنے میں مصروف ہو گیا۔

فنیری دو ہفتے بعد ہی پیرس پہنچ گئی۔ پیئر بہت غمگین تھا، لیکن فنیری کے ساتھ وہ انگور کے باغات اور وائن کشیدگی کے کاروبار کو چلانے میں مصروف ہو گیا۔ اس کے خاندان کے ساتھ وقت گزارنے اور مداری سورج کے گرم اور سست دن ہمیشہ کے لئے مصروف اور لمبے دنوں میں بدل گئے تھے۔ لیکن وہ پھر بھی خود کو خوش قسمت سمجھتا تھا۔ ایک تو ازدواجی زندگی اچھی تھی اور اس کے علاوہ اس کی آمدنی بھی خاطر خواہ تھی۔ وہ سوچتا تھا بورڈیو میں وقت کی کمی اور زیادہ محنت کے باوجود زندگی خراب نہیں ہے۔

لیکن وہ غلط تھا۔ اس پر جلد ہی واضح ہو گیا کہ فنیری حسد میں مبتلا تھی۔ مڈغاسکر میں اس کا کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ لیکن فرانس میں وہ سوچتی تھی کہ وہ سب سے زیادہ حسین نہیں ہے اور اس کو مقامی پر وضع طور طریقے بھی نہیں آتے تھے۔ اس کو نوکروں، کلرکوں، یہاں تک کہ کسانوں کی لڑکیوں سے جو انگوروں کے گچّھوں کو چن چن کر توڑتی تھیں اور فنیری کے مضحکہ خیز تلفظ پر زیرِ لب مسکراتی تھیں، سب سے حسد تھا۔ اس نے خود کو قائل کر لیا کہ پیٔر نے ان میں سے ہر ایک کے ساتھ باری باری ناجائز تعلّقات قائم کئے تھے۔

فنیری نے پیٔرپر طنز کرنا شروع کر دیا جو پیٔر شاید ہی سمجھ سکتا تھا۔ پھر اس نے اپنے بیڈروم کی رازداری میں الزام لگانے شروع کر دئے ۔ جب پیٔرنے ان سے انکار کیا، تو اس نے باورچی خانے، کشیدہ خانے، باغات، ہر جگہ میں پیٔر پر الزامات لگائے اور اس کی تذلیل کی۔ جس فرشتے نے مڈغاسکر میں پیٔر سے شادی کی تھی وہ فرشتہ ایک شیطان بن گیا تھا، جلن کے مارے اندھا ہو چکا تھا۔ نہ ہی پیٔر کے کسی عمل یا بات سے حالات بہتر ہوئے ۔ اکثر وہ ہفتے بھر یا اس سے بھی زیادہ عرصے کے لئے بات کرنے سے انکار کر دیتی، اور جب وہ آخر بات کرتی تو چیخ چلّا کر، گالی گلوچ کے ساتھ پیٔر کو چھوڑ جانے کی دھمکیاں دیتی۔ تیسری انگور کی فصل پر یہ ہر ایک پر واضح تھا کہ وہ ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں۔

ایک جمعہ کی شام پیٔر ایک نئی برقی شکنجے کی مشین پر انگوروں کا رس نکالنے کے لئے کام کر رہا تھا، اور اس وقت وہ اکیلا تھا۔ انگور چنندہ کام ختم کر کے جا چکے تھے۔ اچانک دروازہ زور سے کھلا اور فنیری داخل ہوئی۔ وہ سیدھی پیٔر کے پاس آئی، اس کی گردن کے اردگرد اپنی باہیں ڈال دیں اور پیٔر کے ساتھ بری طرح لپٹ گئی۔ کشیدہ خانے میں انگوروں کی شدید مہک کے باوجود پیٔر کو اس کی سانس میں سے شراب کی بو آرہی تھی۔

”ڈارلنگ، “ فنیری نے کہا ”ہمیں؟ “

پیٔر کے دل میں دفعتاً فنیری کے لئے شدید خواہش پیدا ہوئی، لیکن پچھلے بے نظیر توہین اور ذلت آمیز مناظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گئے ۔ پیٔرنے اس کو دھکا دے کر علیحدہ کیا۔

”لیکن، پیارے، میں ایک بچے کی ماں بننے والی ہوں۔ “

”بے سر و پیر کی بات نہ کرو۔ بستر پر جا کر سو جاؤ! تم نشے میں ہو اور اس پتلون کو اتار دو۔ تم اس میں ایک بازاری عورت کی طرح نظر آتی ہو۔ “

فنیری کا چہرہ سرخ اور سیاہ ہوگیا، اور اس نے نئے الزامات لگاتے ہوئے خود کو پیٔر کے اوپر پھینک دیا۔ ”تم نے کبھی میری پرواہ نہ کی۔ مجھے صرف جنسی تعلق کی حد تک جانا۔ تم اس تعلّق کے لئے دیوانے رہے اور گوری عورتوں کے ساتھ یہی کرتے رہے۔ یہ سفید عورتیں بازاری ہیں۔ “ فنیری نے دیوار پر لٹکا ہوا چاقو لپک کر اپنے ہاتھ میں لیا اور پیٔر کی طرف جھپٹی۔ وہ آنسو ؤں میں تھی لیکن پھر بھی پیٔر کو اپنی گردن کو چاقو سے بچانے کے لئے پوری طاقت استعمال کرنا پڑی۔ آخرکار وہ فنیری کو دھکا دینے میں کامیاب ہو گیا اور وہ شکنجے کی مشین کی طرف گری۔ پیئر گہری سانس لیتے ہوا کھڑا ہوا تو دیکھا کہ فنیری کے بال مشینی شکنجے کے ایک بڑے پیچ میں پھنسے ہوئے ہیں اور وہ پیچ اس کو مشین کی طرف گھسیٹ رہا تھا۔ اس نے چیخ کر خود کو آزاد کروانے کی ناکام جدوجہد کی۔ اب وہ پیچ اس کے کندھے میں آہستہ آہستہ پیوست ہو رہا تھا۔ فنیری نے زور سے چیخ ماری۔ پھر وہ بے ہوش ہوگئی، درد سے یا مشین سے اٹھنے والی انگوروں کی ثقیل دھند سے! پیٔر نے منہ دوسری طرف پھیر لیا جب تک کہ مشین سے ایک خوفناک آواز نہیں آئی جس سے پیٔر کو پتہ چلا کہ فنیری کی زندگی ختم ہو چکی ہے۔ پھر اس نے اپنا بازو اٹھایا اور مشین کی بجلی کو سوئچ سے بند کر دیا۔ ”

چارلس ڈی گریوز کے مہمانوں کے چہروں سے حیرانی ٹپک رہی تھی۔ وہ کچھ لمحات کے لئے رکا۔ پھر اس نے کہا ”ہوں! میں کھانے پینے کے دوران تفصیلات میں نہیں جاؤں گا۔ پیئر نے باقی جسم کو بھی شکنجے میں دھکیل دیا۔ پھر وہ گھر چلا گیا، غسل کیا، کھانا کھایا، اوربستر پر چلا گیا۔ اگلے دن اس نے سب سے یہی کہا کہ فنیری نے آخر کار اسے چھوڑ دیا اور مڈغاسکر واپس چلی گئی۔ اس وضا حت پرکوئی حیران نہیں ہوا۔ “

چارلس ڈی گریوز پھر رک گیا۔ اس کے مہمان کہانی سن کر کچھ سکتے میں آ گئے تھے۔ ان سب کی آنکھیں ڈی گریوز کو گھور رہی تھیں۔

”یقینا، “ اس نے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا ”سرخ بورڈیو وأین کے لئے سنہ 60 خراب سال تھا، مگر پیئر کے لئے نہیں۔ یہ غیر معمولی بات تھی کہ اس نے ایوارڈ کے بعد ایوارڈ جیت لئے ، اور کوئی بھی نہیں سمجھ سکتا تھا کہ کیوں! “

جنرل کی بیوی نے حلق کو صاف کیا۔

”لیکن یقیناً، “ اس نے کہا، ”تم نے اسے نہیں چکھا ہو گا؟ “

”نہیں، میں نے اسے نہیں چکھا۔ لیکن پیٔر نے مجھے یقین دلایا کہ اس کی بیوی نے وائن کو ایک ناقابل فراموش ذائقہ بخش دیا“

”اور تم نے نہیں۔ اس کو خریدا؟ “ جنرل نے پوچھا۔

”میں کس طرح انکار کر سکتا تھا؟ روز ایسا موقع نہیں آتاکہ اس طرح کی نایاب شے مل جائے ! “

ایک طویل خاموشی چھا گئی۔ ولندیزی اپنی نشست میں اضطراب کی وجہ سے عجیب طور پر ہلا، اس کا گلاس میز اور اس کے کھلے ہونٹوں کے درمیان معلّق تھا۔ دیگر مہمانوں نے ایک دوسرے کو بے چینی سے دیکھا۔ انہیں سمجھ میں آرہا تھا اور نہیں بھی آرہا تھا۔

”لیکن دیکھو میری طرف، ڈی گریوز، “ آخر جنرل نے صاف صاف پوچھا، ”تمہارا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ ہمیں تم اس بد نصیب عورت کی شراب پلا رہے ہو، کیا تم سچ مچ؟ “

ڈی گریوز نے انگریز کو غور سے دیکھ کر کہا۔
”جنت حرام مجھ پر، جنرل، “ پھراس نے ایک لمحے کے بعد آہستہ سے کہا۔ ”ہر کوئی جانتا ہے کہ بہترین ونٹیج وائن کوہمیشہ ہر چیز پر فوقیت ہونی چاہیٔے۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).