میں عمران خان کے مداح سے نقاد کیسے بن گیا؟


غالباً اسی دن پہلی بار میں نے ان کا نام سنا تھا. اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا. قبلہ والد مرحوم مجھے اور بڑے بھائی کو کھپرو لے گئے عید کے کپڑے دلوانے کے لئے. ہم جس بھی دکان پر گئے لوگ کان پر ریڈیو لگائے بیٹھے تھے، گاہک آئے یا جائے انہیں پرواہ نہ تھی بس کبھی کسی بات پر اچھل رہے تھے تو کبھی ہلکی پھلکی گالیاں بھی دے رہے تھے. سالے پٹھان نے میچ کا سودا کر لیا ہے، سلو کھیل رہا ہے۔

میں حیران تھا کہ یہ لالا کون ہے جو ان لوگوں کے اعصاب پر سوار ہے۔ اپنی روزی روٹی کی پرواہ نہیں، سب ریڈیو کی طرف متوجہ ہیں۔

رات کو گھر پہنچے تو گاؤں میں شادی کا سماں تھا۔ ہر ڈیرے پہ خان کے چرچے تھے، میں نے اپنے کزن سے پوچھا، یار یہ خان کون بلا ہے جس کی وجہ سے ہماری عید شاپنگ بھی ادھوری رہ گئی۔

جب کزن نے بتایا آج ہم ورلڈ کپ جیتے ہیں اور عمران خان کی کپتانی میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا، اس وقت نہ مجھے ورلڈ کپ کا پتہ تھا نہ کرکٹ اور کپتانی کا، لیکن بس میں بھی اکثریت کے ساتھ عمران خان زندہ باد کے نعرے لگانے لگا۔

اسی دن سے ہمارے گاؤں میں بھی کرکٹ کا کھیل شروع ہوا، بلے کی جگہ گھروں میں کپڑے دھونے والے تختہ کو استعمال کرتے تھے اور شاپرز کو لپیٹ کر ایک گیند بنائی گئی۔

پھر آھستہ آھستہ خان صاحب میں دلچسپی بڑھنے لگی، اب خان کے لئے میرے خیالات بدل گئے تھے۔ وہ والا کھڑوس خان نہیں رہا جس نے ہماری عید خریداری کو پھیکا کردیا تھا۔

اخبارات میں سے خان کی تصاویر کاٹ کر رکھنا پھر پرانی اسکول ایکسر سائیز کاپی پر انہیں چسپاں کرتا تھا اور اپنے دوستوں کو البم دکھاتا تھا۔

خان صاحب سے میری محبت اس وقت عروج پر پہنچی جب جماعت اسلامی کے کچھ اسٹوڈنٹس نے انہیں پنجاب یونیورسٹی میں گریبان سے پکڑا تھا۔ میرا دل کرتا کہ ان سے لڑ پڑوں سب کو بھون ڈالوں، لیکن خان صاحب کی جرات اور حوصلے کو سلام کہ انہوں نے ذاتیات کے بارے میں کبھی سوچا نہیں، اگر کوئی اور سیاستدان ہوتا تو شاید اپنے پالتو غنڈوں کے ہاتھوں ان کی تذلیل کروا کے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرتا لیکن خان نے تاریخی الفاط کہے کہ میں نے انہیں معاف کیا۔

اس کے بعد خان صاحب اسی جماعت کے امیر کے شانہ بشانہ کھڑے تھے جمہوریت کی بقا کے لئے۔

اگر چہ میری تربیت خالصتا مذہبی ماحول میں ہوئی لیکن میں نے کبھی انہیں یہودی ایجنٹ نہیں سمجھا۔

مشرف کی حمایت کے اعلان کے وقت میری محبت تقسیم ہو گئی، اب خان سے زیادہ مجھے کلثوم آپا اور مخدوم جاوید ہاشمی سے محبت ہو گئی۔ پھر شریف خاندان باہر چلا گیا اور ہاشمی صاحب جھوٹے بغاوت کے کیس میں پاکستان کی سیاست میں جمود طاری ہوگیا، اس وقت بس میری سیاست، صرف ایم کیو ایم کی مخالفت تھی، روزانہ لاشے گرتے۔ کراچی میں جنگل کا قانون تھا، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ پرائیویٹ چینلز پر الطاف کی گھنٹوں بکواس سن سن کر پاکستانی حکمرانوں سے نفرت ہو گئی تھی، میں اس وقت رینجرز کے اسکول میں ٹیچر تھا اور مشرف کے خلاف بلا سوچے سمجھے تنقید کرتا تھا، آج سوچتا ہوں اس وقت میں کیسے بچ گیا، شاید انہیں میری حسن نیت کا علم تھا، اگر اس کا عشر عشیر بھی آج بولوں تو شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (میرے بہت سارے دوست جو اس وقت صرف خود کو ہی محب وطن سمجھتے ہیں وہ اس وقت الطاف کی ہر لغو بات پر آمنا صدقنا بولتے تھے، جی بھائی جی بھائی کرتے نہ تھکتے تھے)۔

پھر وکلآئی تحریک نے سیاسی جمود کو توڑا، شریف خاندان اور محترمہ وطن واپس لوٹے، محترمہ کی شہادت اور پرویز مشرف کی روانگی، ہاشمی صاحب کی رہائی اور پی ٹی آئی کا عروج کی طرف سفر، اس عرصے کے دوران بھی خان صاحب میرے آئیڈیل تھے۔

جو شریف خاندان سے محبت تھی وہ ہاشمی صاحب کے پارٹی چھوڑنے سے ختم ہو گئی، پھر کلثوم آپا کا ان کے پاس آنا اور ہاشمی کا نہ ماننا، اس وقت مجھے چودھری نثار اور شہباز شریف سے بے انتہا نفرت ہونے لگی گویا انہوں نے ہاشمی کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور نہیں کیا تھا، ہمارے خاندان کو توڑا تھا۔ لیکن پی ٹی آئی میں ہاشمی کو ملنے والی عزت نے پارٹی چھوڑنے کا غم بھی دور کردیا۔

دو ھزار آٹھ سے تیرہ کے دوران زرداری کا چہرہ کھل کر سامنے آیا، ایک طرف سید احسان شاہ کے قاتل اور کارساز کے مجرم تو دوسری طرف قاتل لیگ والے ہوتے تھے۔ اب میرا جینا مرنا پی ٹی آئی کے لئے تھا کیونکہ خان صاحب اور ہاشمی میاں دونوں اس کو لیڈ کر رہے تھے۔ 2013 میں یہی رزلٹ متوقع تھا، لیکن دعا کرتا کہ کسی طرح خان صاحب اپوزیشن لیڈر بن جائے تا کہ حکومت کے کاموں پر چیک اینڈ بیلنس ہو۔

مجھے میاں صاحب میں بہت امیدیں تھیں کہ ملک کے لئے بہت کچھ کرے گا لیکن ان کو بھی سیدھا رکھنے کے لئے یہ حسرت ہوتی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئر مین عمران خان ہو۔

پھر دو ھزار چودہ آیا اور اچانک خان صاحب نے اسلام آباد کی طرف پیش قدمی شروع کر دی، سب کچھ سمجھ میں آ رہا تھا کہ مشرف کو بچانے کے لئے خان صاحب اور قادری کو میدان میں اتارا گیا، پھر شیخ شیطان جیسے ناڑا ڈالنے والے لوگ خان کے قریب ہونے لگے اور ہاشمی میاں جیسے نڈر اور باغی انسان بوجھ سمجھے جانے لگے، سول نافرمانی جیسے ناپاک اعلانات کئے گئے تب میرا سپنا بھی ٹوٹ گیا اور میں مداح سے نقاد بن گیا۔

جس شخص سے اتنی امیدیں وابستہ تھیں کہ وہ حقیقی عوامی نمائندہ بن کر ابھرے گا وہ تو تیس سیٹوں پر بے ایمان بن گیا۔

اس دن کنٹینر سے ایک باغی نہیں دو باغی اترے، ایک ہاشمی صاحب اور ایک میرے اندر کا باغی انسان جس نے ہمیشہ مظلوم اور مقہور کا ساتھ دیا ، مشرف اور الطاف جیسے سفاکوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔

ان دنوں میں نے جنرل راحیل شریف کے خلاف ایک لمبا میسج لکھ کر دوستوں کو فارورڈ کیا، اسی وقت ایک دوست نے کال کر کے سمجھایا کہ یار کسی ایجنسی والے کو مت بھیجنا، میں نے کہا سر آپ کے خلوص کا شکریہ لیکن میں نے ابتدا ان سے ہی کی ہے تا کہ میرا پیغام کسی طرح جنرل صاحب تک پہنچے، میرا وطن جل رہا ہے میں بیٹھ کر قصیدے نہیں لکھ سکتا۔

خان صاحب کو آج بھی میں اچھا انسان سمجھتا ہوں ان کی نیک نیتی پر کوئی شک نہیں لیکن کھیل ھمیشہ دیانتداری سے کھیلا جائے، بخشی ہوئی جیت سے دیانتداری سے ہار جانا ھزار بار بہتر ہے، کیونکہ پھر آپ کو کوئی شیخ رشید یا صادق سنجرانی جیسوں کو اکوموڈیٹ کرنے کے لئے فورس نہیں کر سکے گا۔

اگرچہ خان صاحب سے راہیں جدا ہیں لیکن دعا ہے کہ جو انہوں نے اعلانات اور وعدے کئے وہ پورے کر سکیں۔ تاہم مجھے لگ رہا ہمیں چند سالوں کے بعد نواز ثانی ملے گا جو جمہوریت کے راستے میں روڑے اٹکانے اور مہرہ بننے پر شرمندہ ہوگا اور ازالے کی کوشش کرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).