نجی تعلیمی اداروں کے ساتھ سرکاری شعبے کا غیر روایتی فرانزک آڈٹ کب ہوگا ؟


پاکستان میں ہر فرد کو تعلیم کی فراہمی ریاست کی آئینی ذمہ داری ہے تاہم قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہر حکومت عوام کو بلا امتیاز معیاری تعلیم کی فراہمی کی اس آئینی ذمہ داری کو پورا کرنے سے قاصر ررہی ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں نجی سطح پر تعلیمی اداروں نے باقاعدہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر لی اور اس ملک میں یہ کاروبار خوب پھلا پھولا نتیجتا صاحب حیثیت افراد نے تو اپنے بچوں کو پیسوں پر فروخت ہونے والی یہ تعلیم خرید کردی تاہم معیاری اور رائج الوقت علم کا یہ نور ملک کے غریب افراد کی اکثریت کی دسترس سے دور رہا ۔ بھاری بھرکم فیسوں اور معمول کے دیگر اخراجات کے حامل یہ ادارے ملک میں تیزی سے فروغ پائے اور دوسری طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال بہتری کے بجائے تنزلی کا شکار رہی ایک طرف جہاں یہ نجی ادارے والدین سے بھاری فیسیں سمیٹنے میں مصروف عمل رہے تو دوسری جانب سرکاری ٹیچرز کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے اساتذہ کا قلیل معاوضے پر استحصال کرتے رہے۔

ملک میں ان نجی تعلیمی اداروں سے متعلق موثر قانون سازی نہ ہونے کے باعث ایک عرصہ تک ان کی من مانیاں جاری رہیں اور اعلی عدالتوں کے فیصلوں کے برعکس ان کی اکثریت چھٹیوں کے دوران بھی والدین کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالتی رہی انتظامی مشینری ان کے سامنے بے بس نظر آئی ایسے حالات میں چیف جسٹس آف پاکستان نے نوٹس لیتے ہوئے بھاری فیسیں وصول کرنے والے تعلیمی اداروں کو نہ صرف شرح فیس کم کرنے کے احکامات جاری کئے بلکہ ان کے فرانزک آڈٹ کا بھی حکم دیا جس سے ایک امید ہوچلی ہے کہ ملک میں اپنی مرضی کے تحت فیسوں کا اطلاق کرنے والے تعلیمی اداروں کو کسی حد تک ایک قابل فہم دائرے میں لانا ممکن ہوسکے گا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں اس وقت لگ بھگ دس لاکھ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اس وقت صوبائی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایمرجنسی نافذ کررکھی ہے اور دیگر محکموں کی نسبت ان دونوں شعبوں کے ہزار ہا ملازمین کو ڈیوٹی کا پابند کرنے کے لئے ان محکموں کے اپنے افسران کے علاوہ انتظامی مشینری کو بھی ان کی کارکردگی کا مستقل جائزہ لینے کے لئے متعین کردیا گیا ہے جبکہ بلوچستان کابینہ نے تعلیم اور صحت کو لازمی سروسز قرار دینے کا فیصلہ کر کے قانون سازی کی غرض سے ڈرافٹ کو بلوچستان اسمبلی میں لانے کی مکمل تیاری کرلی ہے جس کے رد عمل میں اساتذہ اور افسران کی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں اور لازمی سروسز کے بل کالا قانون قرار دیتے ہوئے صوبے بھر میں احتجاج شروع کردیا گیا ہے گو کہ اب تک بلوچستان اسمبلی میں یہ بل نہیں لایا گیا تاہم قبل از وقت بعض سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت شروع کردی ہے۔

یہ امر باعث افسوس ہے کہ صوبے میں پسماندگی کا رونا رونے والی بعض جماعتیں بھی اصلاحات کے عمل کو سیاست کی عینک سے دیکھتے ہوئے غریب افراد کے اجتماعی مفادات کو بھی سیاسی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں۔ اور احتجاج میں ان یونین تنظیموں کا پارلیمانی ترجمان بن جاتی ہیں جن کی وجہ سے تعلیم اور صحت کے شعبے تباہی سے دوچار ہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے جہاں نجی تعلیمی اداروں کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا ہے وہاں غریب عوام کے وسیع تر مفاد میں سرکاری تعلیمی اداروں کی نابہہ گفتہ صورتحال کا بھی نوٹس لیتے ہوئے ملک بھر خصوصا بلوچستان کے سرکاری تعلیمی اداروں کی کارکردگی اور اصلاحات کا جائزہ لینے کے لئے ایک مستقل کمیشن قائم کرنا ہوگا چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار خان نے گزشتہ دنوں دورہ کوئٹہ کے دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ بلوچستان سے کوئی ناانصافی نہیں ہونے دیں گے امید ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان بلوچستان کی پسماندگی کو حقیقی معنوں میں ختم کرنے کے لئے تعلیمی ایمر جنسی پر نظر رکھتے ہوئے حکومتی اقدامات اور اصلاحات کے عمل کا مستقل جائزہ لینے کے لئے کوئی ٹھوس میکنزم متعارف کرکے بلوچستان کی آنے والی نسلوں پر احسان عظیم کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).