معاملہ یکطرفہ احتساب کا


تحریک انصاف کی حکومت کرپشن کے خاتمے اور احتساب کے نعرے کا انتخابات میں اتری اور کامیابی حاصل کی۔ حکومت کی پہلی ترجیح احتساب نظر آئی مگر یہ احتساب اب انتقام بنتا نظرآرہا ہے۔ احتساب ہوتا تو سب کا ہوتا لیکن اب تک احتساب نہ صرف مخصوص مخالفین کا کیا جا رہا ہے بلکہ اس میں انتقام کی بو اتنی شدید ہے کہ ہر طرف پھیل گئی ہے۔ یہ نہیں کہ جن لوگوں کا احتسا ب ہو رہا ہے وہ دودھ کے دھلے ہیں لیکن اگر الزام پر کچھ لوگوں کو پکڑ کر جیل میں بند کردیا جائے گا اور اسی نوعیت کے الزامات پر حکومتی اراکین کو کھلی چھوٹ دی جائے گی تو نہ صرف احتساب کے سارے عمل پر سوال اٹھیں گے بلکہ اس کا دفاع بھی ناممکن ہو جائے گا۔

اس وقت نیب اور حکومت ایک ہی پیج پر نظر آرہے ہیں اور وزراء کے بیانات کو مدنظر رکھا جائے تو لگتا ہے کہ کس کا احتساب ہونا ہے اور کس کو اند ر کرنا ہے یہ فیصلے بھی حکومت اور نیب مل کر رہے ہیں۔ اس وقت اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف اور مسلم لیگی رہنما سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق محض الزامات کی بنا پر جیل میں بند ہیں جبکہ پی پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری کی گرفتاری جلد متوقع ہے۔ دوسری طرف اسی طرح کے الزاما ت اور انکوائریاں سابق وزیر اعلیٰ کے پی پرویز خٹک، موجودہ وزیر اعلیٰ کے پی محمودخان، کے پی اور پنجاب کے سینئر وزراء عاطف خان اور علیم خان اور کئی وفاقی و صوبائی وزراء کے خلاف چل رہی ہیں لیکن وہ سب آزاد پھر رہے ہیں۔ اس وقت تک نیب کا ریفرنس صرف پی ٹی آئی کے سابق وزیر قانون بابر اعوان کے خلاف دائر ہواہے لیکن ان کو بھی گرفتار کرنے سے گریزکیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں نیب کے کردار پر انگلیاں تو اٹھیں گی لیکن جس طرح سے احتساب کا کریڈٹ حکومتی وزراء لے رہے ہیں اس سے حکومتی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا حکومت انتقام میں اندھی ہو گئی ہے یا احتساب صرف مخالفین کا ہی کرنا طے ہے۔ اس نوعیت کے احتساب سے وقتی طور پر تو شاید انتقام پورا ہو جائے اور انا کی تسکین بھی ہوجائے لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔ سیاسی طورپر اس سے حکومت کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا نظر آرہا ہے اور اپوزیشن کو شاید فائدہ۔ اس سے اپوزیشن کے مردہ گھوڑے میں جان ڈل رہی ہے اور ان کو سیاسی جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ فواد چوہدری اور دیگر وزراء اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کی سیاست ختم ہونے اور انہیں مائنس کرنے کی پیشن گوئیاں کر رہے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب تک کو ئی سیاستدان عوام کے دلوں سے مکمل طور پر نہیں اتر جاتا وہ کبھی مائنس نہیں ہوا بلکہ اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اپنی اپنی حکومت کے پانچ سال گزارنے اور میثاق جمہوریت میں طے کرنے کے باوجود نیب قانون میں ترمیم نہیں کی اور اب سر پیٹ رہے ہیں۔ اگر اس وقت اس قانون میں ترمیم کردی جاتی تو شاید آج اس طرح کا احتساب نہ ہو رہا ہوتا۔ اب بھی وقت ہے اگر سیاسی جماعتیں، بشمول حکومتی جماعتوں کے، سر جوڑ کر بیٹھ جائیں تو احتساب کے نیا قانون لایا جاسکتا ہے اور سیاسی انتقام کی راہ روکی جا سکتی ہے۔

اس یکطرفہ احتساب سے حکومت اور اپوزیشن میں دوریا ں بھی روزبروز بڑھ رہی ہیں جس کی واضح نظیر پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں نظر آرہی ہے۔ حکومت کے پاس دونوں ایوانوں میں قانون سازی کے لیے مطلوبہ تعداد موجود نہیں اور کسی قسم کی قانون سازی کے لیے اسے اپوزیشن کی مدد درکار ہوگی لیکن ان حالات میں تو اپوزیشن سے تعاون ملنا ممکن نہیں ہے۔ احتساب کے عمل سے تو کسی کو بھی انکار نہیں لیکن یکطرفہ احتساب سے آنے والوں دنوں میں اپوزیشن سے زیادہ حکومت مشکل میں کھڑی ہو گی۔ حکومتی ایوانوں میں جلد یا بدیر یہ احساس ضرور پیدا ہوگا کہ اپوزیشن کے تعاون کے بغیر جمہوریت کی گاڑی نہیں چل سکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت جمہوریت چلانے میں سنجیدہ بھی ہے یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).