کیا وکلا پاس ہو گئے ہیں؟


سیشن کورٹ گوجرانوالہ میں نئی بلڈنگ کی افتتاحی تقریب تھی۔ سینئر سول جج کے کمرہ عدالت میں مٹھائی سے لدی پھندی میز کے گرد سیشن جج ریاض الحسن علوی اپنی عدلیہ اور کچھ وکلا ءسمیت موجود تھے۔ کالم نگار نے سیشن جج سے عرض کی۔ حضور! یہاں لڈو پیڑوں کی وافر موجودگی سے عدلیہ کے پاس ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ کیا ججز واقعی پاس ہو گئے ہیں؟ ابھی تک اس سوال کا جواب نہیں آیا کہ اک اور سوال سامنے آن پہنچا ہے۔ کیا وکلا ءپاس ہو گئے ہیں؟ اس سوال کے جواب سے پہلے یہ بریفنگ ضروری ہے۔

گوجرانوالہ سے معروف سماجی اور کاروباری شخصیت ملک ظہیر الحق چیف جسٹس سے درخواست گذار ہیں۔ موصوف ستر لاکھ روپوں کے ایک فراڈ کے مقدمہ کے مدعی ہیں۔ ان کا ملزم سیشن کی عدالت سے درخواست قبل از گرفتاری نامنظور ہونے پر فرار ہو گیا تھا۔ پھر دس ماہ بعد پولیس کے قابو آیا۔ ملک ظہیر الحق کا وکیل لاہور ہائیکورٹ میں پیش تھا۔ لیکن سول جج کو ملزم کی رہائی کی بہت جلدی تھی۔ سو مدعی کے وکیل کوسنے بغیر ملزم کی درخواست ضمانت منظور کرلی گئی۔ ملک ظہیر الحق نے اپنی چیف جسٹس کے نام درخواست میں ایک بھیانک حقیقت آشکار کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے۔ اب یہ نظریہ متروک ہو چکا کہ مقدمہ جیتنے کیلئے وکیل کی بجائے جج کر لینا چاہئے۔ آج کل کامیابی کیلئے بار ایسوسی ایشن کے کسی عہدیدار کو وکیل کیا جاتا ہے کہ عدالتیں ان سے خوفزدہ رہتی ہیں۔ ملک ظہیر الحق کے ملزم کا وکیل بھی مقامی بار کا ایک عہدیدار تھا۔

اس مرحلہ پر یہ سوال قابل غور ہے کہ کیا انصاف بار کے عہدیداروں کے ہاں یرغمال بنا رہتا ہے؟ کیا عدالتوں میں انصاف کی بجائے ان عہدیداروں کاراج ہے؟ ہاں! یہ سچ ہے کہ بار کے عہدے بہت نفع بخش ہونے کے باعث بار کا الیکشن ناقابل یقین حد تک مہنگا ہو گیا ہے۔ اب آئیں اس طرف کہ گوجرانوالہ میں تمام عدالتوں کی ایک ماہ تک مقامی بار ایسوسی ایشن کے حکم سے تالہ بندی رہی۔ ان کا اعلان تھا کہ گوجرانوالہ میں ہائیکورٹ کے بنچ کے قیام تک یہ تالا بندی جاری رہے گی۔ کیا ڈویژنل مقامات پر ہائیکورٹ کے بنچ بننے چاہئیں؟ کالم نگار کی رائے میں ضرور بننے چاہئیں۔ اگر بہاولپور سے تھوڑے فاصلے پر ملتان میں بنچ بن سکتا ہے تو پھر گوجرانوالہ میں کیوں نہیں؟

اب یہ سوال ہے۔ کیا اس جائز مطالبے کے منوانے کیلئے عدالتوں کی تالا بندی جائز ہے؟ اس سوال کے جواب میں وکلا کے فیل پاس ہونے کا نتیجہ ہے۔ ایڈووکیسی اپنے مخالف موقف کو دلیل سے رد کرنے کا نام ہے۔ تالا بندی کسی دلیل کا مترادف نہیں۔ تالا بندی کوئی مکالمہ نہیں۔ ہر معاملہ سمجھنے کیلئے اس کے پس پردہ محرکات کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے۔ گوجرانوالہ میں ہائیکورٹ بنچ کا مطالبہ ایک نیا مطالبہ نہیں۔ اس سلسلہ میں گوجرانوالہ کی عدالتوں میں کئی برس سے جمعہ اور ہفتہ کے روز عام ہڑتا ل ہوتی ہے۔ اس ڈھیلی ڈھالی ہڑتال سے کام بھی چلتا تھا اور احتجاج بھی رہتا تھا۔ ہمارے موجودہ صدر بار جناب نور محمد مرزا کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے۔ موصوف 2018 کے الیکشن میں ن لیگ سے ایک شہری صوبائی حلقہ سے انتخابی ٹکٹ کے بھی درخواست گذار تھے۔ بار ایسوسی ایشن کے عہدیدار کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق ہونا غلط نہیں، لیکن اسے اپنی پیشہ ورانہ تنظیم کو اس سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بنانا چاہئے۔

نور محمد مرزا نے 15 جنوری کو صدر بار گوجرانوالہ کا چارج سنبھالا تو عدالتوں میں جمعہ ہفتہ کی ہڑتال جاری تھی۔ 2018 کے عام ملکی الیکشن کے اعلان کے بعد انٹیرم گورنمنٹ میں دوروزہ احتجاج کی یہی صورت برقرار رہی۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت بننے کے ساتھ ہی ہماری بار کے صدر کے تیور بدل گئے۔ اب بار پر امن احتجاج سے عدالتوں کی تالا بندی تک پہنچ گئی۔ ڈھیروں تالے خریدے گئے۔ ان تالوں کی تصویریں اخبارات میں شائع کروائی گئیں۔ اگر عمران خان کہتے ہیں کہ میری حکومت گرانے کی سازش پہلے دن سے ہو رہی ہے تو یہ جھوٹ نہیں۔ وکلا کے اس احتجاج میں ن لیگی رنگ روپ نمایاں دکھائی دینے لگا۔ ن لیگی فنانسنگ کی خبریں عام سننے میں آنے لگیں۔ مقامی ن لیگی ایم پی اے رﺅف مغل سمیت کئی ن لیگی احتجاجی کیمپ میں کھانا لے کر آتے رہے۔

ایک احتجاجی جلسہ میں بار کے ممبر سابق ن لیگی وزیر قانون محمود بشیر ورک مٹھائی لے کر پہنچ گئے۔ سابق صدر بار ملک شوکت علی نے اپنی تقریر میں انہیں یہ جتلایا کہ بنچ کے قیام میں صرف ان کے ایک اشارے کی دیر تھی۔ اب حکومت بدلنے پر ان کا اس احتجاج میں مٹھائی لیکر آنا غیر اخلاقی سا لگ رہا ہے۔ سچ بولنا آسان نہیں لیکن اسے سننا کچھ اور بھی مشکل ہے۔ محمود بشیر ورک نے وہاں سے کھسکنے میں عافیت جانی۔

پھر عدالتوں کی ایک ماہ کی تالہ بندی کے بعد بنچ کی بجائے رجسٹری برانچ مان کر احتجاج ختم کر دیا گیا۔ شاید ن لیگی مقاصد پورے ہو چکے تھے۔ عدالت کے ایک برآمدے میں کالم نگار نے صدر بار سے پوچھا کہ رجسٹری برانچ کی بشارت وزیر قانون راجہ بشارت احتجاج کے تیسرے روز ہی لے کر گوجرانوالہ پہنچ گئے تھے۔ پھریہ ایک ماہ کی لاحاصل خجل خواری کیوں؟ صدر بار بولے۔ آپ اسے چھوڑیں اور یوں سمجھیں کہ اللہ نے ہماری عزت رکھ لی ہے۔

اب کالم نگار پر عزت بچا کر بھاگتے ہوئے شخص کا مشہور زمانہ واقعہ سنانا لازم تھا کہ یہ خاصا برمحل ہے۔ سو کالم نگار نے انہیں بتایا۔ ایک شخص سے پوچھا گیا کہ وہ کیوں بھاگا چلا آ رہا ہے؟ بولا۔ پچھلے چوک میں میرے والد صاحب کو جوتے پڑ رہے ہیں۔ میں وہاں سے بھاگ کر بمشکل اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوا ہوں۔ اب بار اور وکلا کی عزت بچنے بچانے کو چھوڑیں۔ کالم نگار کا سوال ہے کہ کیا وکلا اس احتجاجی امتحان میں پاس ہو گئے ہیں؟

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).