پابند صحافت قائد اعظم کے ویژن سے غداری ہے


پاکستان ہم نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں حاصل کیا تھا۔ اِس کے حصول کے لیے ایک نعرہ لگایا تھا، وہ یہ تھا کہ “لا الہ اللہ” اِس کی تعبیر اور تشریح بھی ہماری قیادت نے خود ہی کر لی تھی۔ لیکن حُصول پاکستان کے بعد ہمارے سیاسی رہنماٶں نے قائداعظم کے فرمودات کو پسِ پُشت ڈال کر غلط تعبیر و تشریح کر کے عوام کو گمراہ کیا۔

لیکن جب حقائق سے آگاہ کرنے کے لیے عوام تک حقائق پہنچنا شروع ہوۓ، تو اُس وقت آزادی صحافت پر قدغن لگاۓ گئے تھے۔ اب خبر اچھی ہو یا بُری، مُثبت ہو یا مَنفی ہر دور میں عوام تک پہنچانے میں رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔ مگر صحافت میں اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ عوام کو گمراہی کے راستے پر گامزن ہونے سے بچایا جاۓ تاکہ وہ مُثبت پہلوؤں سے آگاہ ہوسکیں۔

صحافت ایک ایسا شعبہ ہے، جس میں ایک صحافی پر کافی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جس کو اِن ذمہ داریوں بخوبی طور پر پورا کرنا پڑتا ہے۔ اِس بات سے مجھے سِینئر کالم نگار مظہر عباس کے کالم کی وہ بات یاد آگئی، جو اِنھوں نے اپنے کالم میں کہی تھی۔ بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ایک انگریز Potan Joseph کو ڈان اخبار کا مدیر 1938 میں لگایا، تو کچھ مسلم لیگ کے رہنما حیران ہوئے؛ اور سوال کیا کہ ایک انگریز کو لگانے کی کیا ضرورت تھی۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے جواب دیا ”یہ شخص ایک ایسا مدیر ہے جو استعفیٰ اپنی جیب میں رکھتا ہے؛ اور کبھی صحافتی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتا”۔ اِس نے جب اخبار چھوڑا تو لکھا کہ ”میں جتنا عرصہ ڈان میں رہا، جناح نے کبھی میرے کام میں مداخلت نہیں کی۔ کوئی ایسی خبر آتی جس کا تعلق مسلم لیگ سے ہو، تو میں خود اِن سے پوچھ لیتا تھا”۔

لیکن قائد اعظم کی وفات کے بعد ہماری ریاستی پالیسی اِس قدر صحافت کے منافی رہی ہے، جس وجہ سے کبھی بھی کسی بھی وقت اخبار کو بند کیا جاسکتا تھا؛ یا پابندی لگائی جاسکتی تھی۔ جس وجہ سے صحافتی اداروں کو صحافتی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ حقائق کو دیکھانا مشکل ہوگیا تھا۔ مگر جہاں سَچ لکھنے والے ہوتے ہیں، تو وہاں جھوٹ لکھنے والے بھی موجود ہوتے ہیں۔ حکمران طبقہ وہ واحد طبقہ ہوتا ہے، جن کے ہاتھ میں سرکشی کے گھوڑے کی لگام ہوتی ہے۔ اِن کی سماعتوں کو اپنے فیصلوں پر چاہے وہ صحیح ہوں یا غلط، ان پر مِن و عَن ستائش کی خواہش ہوتی ہے۔ کیونکہ اِن کو اپنے فیصلوں پر سب کچھ اچھا سُننے کی عادت ہوتی ہے؛ اور یہ کام درباری صحافیوں کے علاوہ کوئی اور جانفشانی کے ساتھ نہیں کرسکتا۔

گزشتہ ادوار کی طرح پھر سے میڈیا کا معاشی قتل کرنے کے قوانین بناۓ جارہے ہیں، جوکہ ایک طرح سے آزادئ راۓ پر پابند کے مترادف ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حکومت نِجی چینلز کو اشتہارات دے کر اِن کی معاونت کیوں کرے۔ اشتہارات کی بندش کے ساتھ ہی ساتھ جائیداد کی خرید و فروخت یا ریئل اسٹیٹ کا کاروبار بھی ڈالر کی قمیت میں بار بار اتار چڑھاؤ کی وجہ سے مندی کا شکار ہے۔ دونوں جانب سے اشتہارات کی بندش کی وجہ سے بیشتر روزنامے مالی بحران کا شکار ہوتے نظر آرہے ہیں۔

چنانچہ جنگ گروپ بھی اسی مالی بحران کا شکار ہے؛ اور اسی مالی بحران کے باعث پشاور، کراچی اور لاہور سے شائع ہونے والے پانچ اخبارات اور دو ایڈیشنز کو بند کر کے تقریباً دو ہزار کے قریب ملازمین کو فارغ کردیا ہے۔ جبکہ بند ہونے والے اخبارات میں روزنامہ عوام، ڈیلی نیوز، روزنامہ انقلاب، پشاور اور فیصل آباد سے شائع ہونے والے جنگ کے دو ایڈیشنز اور دو ڈمّی اخبارات پاکستان ٹائمز اور وقت شامل ہیں، جو کہ بند ہوچکے ہیں۔ یقین جانیئے سَچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے، کیونکہ اگر یہ میٹھا ہوتا، تو اس طرح سے رسوا نہ کیا جاتا۔ سنسر شپ کی آڑ میں کتنی ہی پابندی عائد کر دی٫جائیں مگر سَچ کی آواز سُنائی دیتی ہے۔ اگر اس طرح کے حالات جمہوریت میں رہے، تو اِسے جمہوریت تو کہا جاسکتا ہے مگر لاٹھی کے سہارے چلنے والی جمہوریت کہنا حق بجانب ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).