پیپلز پارٹی کی حقیقت۔۔۔؟


سیاست میں تغیر، اور تغیر میں قلیل المدتی و طویل المدتی معاملات کا جائزہ بتاتا ہے کہ کس کا کیا مقام ہے !

پاکستان کی کم و بیش تمام سیاسی پارٹیاں شخصیات یا بانیان کی چھتری تلے سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں۔ ایسی صورت حال میں اپنی اپنی بحث اور اپنی اپنی وکالت ہے، کوئی موروثیت کے عنصر پر تنقید کرتا ہے، اور کوئی اسے میراث گردان کر اپنا رانجھا راضی کرلیتا ہے۔ مسلم لیگ کل تک پیپلزپارٹی کو موروثیت کے طعنے دیتے تھے مگر بعدازاں کوئی ن لیگ ٹھہرا اور کوئی ق لیگ کہیں جونیجو لیگ اور کبھی چٹھہ لیگ کے نقارے بجے۔ حتی کہ جماعت اسلامی جیسی جمہوری رہن سہن رکھنی والی پارٹی بھی کسی خالص جمہوریت یا خالص دینی دائروں میں نہیں، اس کا سیاق و سباق اور شجرہ مودودی ازم ہے۔

“مکینیکل انجنئرنگ ” سے بنی ہوئی پی ٹی آئی کا محور و مرکز عمران خان اور حصول اقتدار ہے، آج کی یہ حکومتی پارٹی ق لیگ ہی کا ایک ساختی ورژن ہے جس کی عمر عزیز اقتدار پر انحصار کرتی ہے جب کہ اس کی طبعی صحت کوئی زیادہ قابل ستائش نہ ہوگی۔ یہ سب ناموں پر اس لئے انحصار کرتا ہے کہ، ہم کسی نظام میں نہیں رہتے اور نہ ہم نظام بنا سکے ہیں۔ اللہ قبر میں بھلا کرے ذوالفقار علی بھٹو کا، کہ اس نے ہمیں 1973 کا آئین دیا لیکن آئین سے ہم کچھ نہ لے سکے سو مثبت نظام نہ پنپ سکا۔ بڑے بڑے لیڈر چونکہ خود نظام کی پیداوار نہ تھے چنانچہ وہ حصول اقتدار کے لئے نظام کے پیچھے بھاگنے کے بجائے نام کے پیچھے بھاگے۔ یوں ایسا نہ ہو سکا کہ عوام کی کوئی ڈیموکریٹ پارٹی ہو۔

تغیرات کے عمومی تاریخی پنے یہ بتاتے ہیں لوگ کیسے کیسے حرص و ہوس کی رو میں بہی جاتے، چشم فلک نے سیاست اور سیاستدانوں کئی کئی رنگوں میں بدلتے دیکھا۔ سابق گورنر پنجاب شاہد حامد جن کے والد بریگیڈیئر حامد نواز، ضیائی دور میں اس وجہ سے پابند سلاسل رہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے تعلق توڑنے پر راضی نہ تھے، مگر یہی شاہد حامد 5 نومبر 1996 کی رات صدر فاروق لغاری کے کہنے پر پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کی چارج شیٹ “تیار” کر رہے تھے، اس موقع پر اس رات صدر لغاری 5، 5 منٹ بعد بڑی بے چینی سے ان کے کمرے میں آکر کہتے :

’’ ہری اپ شاہد، برخاستگی آرڈر تیار کرنے میں اتنی دیر کیوں؟‘‘

انہی شاہد حامد کے بھائی زاہد حامد مشرف اور پھر نواز شریف کے وزیر قانون رہے، آج کل ان کا بیٹا علی زاہد ن لیگ کا ممبر قومی اسمبلی ہے جو الیکشن 2018 میں پیپلزپارٹی کے سابق وزیر اور پنجاب کے سابق صدر اور این ایس ایف و پی ایس ایف کے رہنما چوہدری غلام عباس پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ہارے۔۔۔۔ منظر ایسے بھی ہیں کہ، بمطابق “ایک سیاست کئی کہانیاں” اور روف کلاسرہ :

” حلف اُٹھانے والے وزرا لائن بنا کر کھڑے اور ملکی وغیر ملکی مہمان کرسیوں پر بیٹھے انتظار کر رہے تھے مگر صدر غلام اسحاق خان حلف لینے نہیں آرہے تھے، ان کا اصرار تھا کہ اگر ان کے داماد انور سیف اللہ کو وزیر نہ بنایا گیا تو وہ حلف نہیں لیں گے، آخرایک لمبے بحث ومباحثے کے بعد نواز شریف انور سیف اللہ کو وزیر بنانے پر راضی ہو گئے “

لوگوں کو یاد ہو کہ نہ یاد کہ تاریخ نے دیکھا اور سنایا کہ آصف علی زرداری کو خود صدر اسحٰق خان نے کرپشن کے الزامات میں تین سال جیل میں رکھا، اور پھر اسی زرداری صاحب کو وہ “خود” اپنی کابینہ کا حصہ بنا کر “خود” ان سے حلف لے رہے تھے!

بھٹو صاحب نے جب پارٹی کا آغاز کیا اور اس کو حد درجہ پزیرائی ملی تو اس میں دو مختلف سکول آف تھاٹس تھے، ایک انقلابی شاہراہ پر چل کر نکیل اقتدار تھامنا اور چھیننا چاہتا تھا، دوسرا جمہوری راہ پر گامزن ہوکر عنان اقتدار کو منزل بنانے کا خواہاں تھا۔ مگر بھٹو نے جمہوری راستے کو مقدم جاننے کا فیصلہ کیا۔ اہل نظر کو یاد ہوگا کہ شروع میں بھٹو مخالف قوتوں نے پیپلزپارٹی کی سیاست کو پرتشدد بنانے، پرتشدد ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، “الذوالفقار” کے حوالے سے متضاد آرا سہی لیکن وہ جڑی بہرحال پیپلزپارٹی سے ہیں۔ پھر تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ، بے نظیر بھٹو پرتشدد معاملات اور عناصر سے دور رہیں۔ میر مرتضی بھٹو سے انہیں محبت تھی، اکلوتا بھائی تھا حالانکہ آخر میں وہ بھی جمہوریت کے پورے پروٹوکول سے اتفاق رکھتا تھا مگر بہن ان کے غصیلا ہونے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتیں۔ تاریخ جانتی ہے جب جونیجو لیگ کو پنجاب وزارت اعلی سونپنے کا حکم تھا حالانکہ ان کے پاس کم و بیش 17 ممبران تھے اور پیپلزپارٹی کی حکومت کو “قوت” کے سوا کوئی نہ روک سکتا تھا، پیپلزپارٹی نے منظور وٹو اور سردار نکئی کو برداشت کرلیا گیا، صاحبزادہ یعقوب کو بطور وزیر خارجہ اس سے قبل الیکشن کے بعد ایڈجسٹ تک کرلیا گیا۔ یہ رفتہ رفتہ مثبت تبدیلی اور مصلحت پسندی پر ہر وقت کا آمر بہرحال تنقیدی مضامین قلم بند کراتا رہا۔۔۔۔

اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی کا ماضی رکھنے والے یونیورسٹی کے سوشل سائنسز کے ایک ڈین و پروفیسر اور ہمارے ایک دوست کا تازہ تجزیہ ہے کہ “مثبت تغیر کا اسمبلی میں اور باہر یہ معاملہ ہے کہ پیپلزپارٹی آج ایک ڈیموکریٹک اکیڈمک پارٹی دکھائی دیتی ہے۔ انسانی حقوق، مصلحت، رواداری اور شائستگی کا سبق پیپلزپارٹی سکھاتی اور بتاتی نظر آتی ہے۔”

اس تائید تازہ کو جانے لوگ کس زاویے سے دیکھیں تاہم اسے تبدیلی کہیں یا ان تجزیہ نگاروں کا دیر سے ادراک، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔۔۔۔ وہ الگ بات ہے کہ، ہم آج تک مشرقی و مغربی پاکستان کی علیحدگی پر متعصب ہیں اور اس پر غور ہی نہیں کرتے کہ اصل میں اقتدار تھا کس کے پاس، سٹئیرنگ پر تھا کون کون؟ ہوا کیا ؟ کیسے ہوا ؟ کس نے کیا ؟ خیر وہ وقت بہت پیچھے چلا گیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت اور بناؤ میں آگے چلیں !

کچھ دن قبل پیپلزپارٹی کے ایک سابق وزیر کا کہنا تھا کہ، پچھلے دور حکومت میں جب الیکشن سر پر تھے تو زرداری صاحب کو کیا گیا کہ فلاں ٹیکس نہ لگایا جائے انتخابی نقصان ہوگا تو زرداری صاحب کا کہنا تھا کچھ چیزوں کو انتخابی نہیں، قومی نظروں سے دیکھنا پڑتا ہے۔ ن لیگ حکومت کے آخری دنوں میں پارٹی کی طرف اسلام آباد مولوی دھرنے کی حمایت کا مشورہ آیا تو پارٹی ہائی کمان نے سختی سے اس مشورے کو جھٹک دیا، کہ یہ ساتھ جمہوری راستے کی جانب نہیں جاتا۔

وہ دھرنا جو ن لیگ کی حکومت اور جمہوری دور کا خاتمہ کرنے میں سو فیصد کامیاب ہوا چاہتا تھا مگر پیپلزپارٹی نے اسمبلی میں ن لیگ کا نہ چاہتے ہوئے بھی ساتھ دیا اور اسی پارلیمنٹ کو تقویت بخشی جس میں تحریک انصاف والے ایسے ہی واپس آئے تھے جیسے لوٹ کے بدھو گھر کو آتے ہیں۔ اور آج جمہوری عمل جاری ہے اور تحریک انصاف حکومت میں ورنہ آج جمہوریت نہ ہوتی۔ اب بھی گمان غالب جس طرح دو چار کے فرق سے تحریک انصاف پنجاب اور مرکز میں برسر اقتدار ہے اگر پیپلزپارٹی بیچ میں نہ ہو تو ن لیگ چٹکی بھر میں فرق مٹادے! اگر ایسے ہوا بھی تو شواہد، ارادے اور پیپلزپارٹی کی تاریخ بتاتی ہے کہ، پیپلزپارٹی حکومت و جمہوریت بچانے کو ترجیح دے گی، چاہے کچھ قوتیں پیپلزپارٹی اور آصف زرداری کو “تعصب” کا نشانہ بناتی پھریں۔

کچھ تلخ، کچھ ترش اور چند شیریں حقیقتوں کی حقیقت اپنی جگہ مگر کسی نے درست کہا کہ “مثبت تغیر کا اسمبلی میں اور باہر یہ معاملہ ہے کہ پیپلزپارٹی آج ایک ڈیموکریٹک اکیڈمک پارٹی دکھائی دیتی ہے۔ انسانی حقوق، مصلحت، رواداری اور شائستگی کا سبق پیپلزپارٹی سکھاتی اور بتاتی نظر آتی ہے۔”۔۔۔۔ باقی باتیں پھر سہی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).