عورتوں پر تشدد کے ضمن میں کچھ ضروری معلومات


ہر سال 25 نومبر کو اقوام متحدہ کی طرف سے عورتوں پر تشدد کے خلاف دن منایا جاتا ہے۔ اور پھر اس کی سرگرمیاں مسلسل دو ہفتے یعنی دس دسمبر تک جاری رہتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ یے کہ صنفی تشدد کے خلاف احتجاج کیا جائے اور لوگوں کو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی دی جائے۔ عورتوں اور بچیوں پر تشدد کی مکروہ روایت ابھی تک جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق عورتوں کی ایک تہائی تعداد اپنی زندگی میں کسی نہ کسی جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے اور یہ تشدد ان کے اپنے، قریبی لوگ ہی کر رہے ہیں۔ تشدد کی کئی اقسام ہیں۔

ہر سال 25 نومبر کو پوری دینا کی طرح ناروے میں اس دن کو یاد کیا جاتا ہے۔ پر امن اور منظم جلوس بھی نکلتے ہیں، سیمینار بھی ہوتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان اجتماعات میں مرد بھی بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔

ناروے میں عورتوں اور بچوں کے کیئے ایسے ہنگامی مراکز ہیں جہاں وہ پر تشدد ماحول سے پناہ لے سکتے ہیں۔ میں نے دس سال اس سینٹر میں رضاکارانہ طور پر کام کیا ہے اور کئی طرح کے کیسز دیکھے ہیں۔ میں نے پوری راز داری کا حلف لیا ہوا ہے اس لیئے میں کسی بھی خاص کیس کے بارے میں بات نہیں کر سکتی لیکن خود تشدد پر ضرور بات کرنا چاہوں گی۔

یہ سینٹر جو ہنگامی مدد فراہم کرتا ہے وہ یہ ہے کہ عورتوں اور ان کے بچوں کو فوری طور پر جسمانی تشدد سے بچا لیتا ہے۔ اگر آپ تشدد کو سمجھنا چاہیں تو اس طرح سمجھیں۔

جسمانی تشدد: (اس میں وہ سب آجاتا ہے جس سے آپ کو ضرب پہنچے یا جسمانی چوٹ لگے)

تھپڑ مارنا، دھکا دینا،  ٹھوکر مارنا، بال نوچنا، طاقت کے زور سے روکنا، گلا دبانا، چیزیں اٹھا کر مارنا،

زبانی یا جذباتی تشدد: (جی ہاں تشدد زبان سے بھی کیا جاتا ہے اور اس کا درد بھی ہوتا ہے۔ جذبات مجروح ہوتے ہیں۔)

 گالی گلوچ کرنا، آپ کو غلط ناموں سے پکارنا، چیخ کر بات کرنا، ہر وقت نکتہ چینی کیئے جانا، آپ کو فیصلےکا اختیار نہ دینا، لوگوں کے سامنے آپ کو شرمندہ کرنا، آپ کی اقدار، مذہبی سوچ اور نسل کا مذاق اڑانا،

عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہیں۔ یعنی آپ کو تعلیم، جاب، شادی اور دوسرے شعبوں میں اپنے فیصلے کرنا کا حق ہے۔ اسی طرح آپ کو اپنے بدن پر بھی پورا اختیار ہے۔ بچے پیدا کرنا یا پیدا نہ کرنا دونوں کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔

جنسی تشدد:

آپ جنسی تشدد کا شکار ہیں اگر:

آپ کے جسم کو آپ کی مرضی کے بغیر چھوا جائے۔ مذہبی طبقات کچھ بھی کہتے رہیں، زبردستی کی سیکس ریپ ہی کہلائی گی۔

آپ کو کسی خاص انداز میں لباس پہننے یا نہ پہننے پر مجبور کیا جائے۔

اپ کی جنسی خواہش اور طمانیت کو نظر انداز کیا جائے۔

آپ کو گھٹیا اور بازاری ناموں سے پکاراجائے۔

آپ کو اسے عمل کرنے پر مجبور کیاجائے جو ناگوار اور ناجائز لگے۔

آپ کو بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے پر مجبور کیا جائے۔

 تشدد کی ان اقسام کو سامنے رکھیں تو دنیا کی وہ ایک تہائی عورتیں عمر کے کسی نہ کسی دور میں، کسی نہ کسی کے ہاتھوں، کسی نہ کسی طور پر، تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ اس میں مشرقی یا مغربی۔ غیر تعلیم یافتہ یا تعلیم یافتہ۔ نوکری پیشہ یا گھر بیٹھنے والی کی تخصیص نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ مشرقی، غیرتعلیم یافتہ اور گھر بیٹھنے والی عورتیں ظلم برداشت زیادہ کرتی ہیں۔ اس کی وجہ ان کا احساس عدم تحفظ ہے۔

عورتوں کو ہمیشہ غیر اور انجانے مردوں سے ملنے میں خوف رہتا ہے۔ لیکن خوفناک بات یہ ہے کہ وہ تشدد کا شکار اپنوں ہی کے ہاتھوں ہوتی ہیں۔ شوہروں کے ہاتھوں مار کھانے، ذلت اٹھانے اور بے توقیر ہونے کے باوجود وہ اس بندھن سے باہر نکلنے کی جرات نہیں رکھتیں۔ کیونکہ یہ آسان نہیں۔ ایک تو عورت کا خمیر کچھ ایسا ہے کہ اسے رشتہ توڑنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے۔ دوسرا اس پر خاندان اور سماجی دباؤ رہتا ہے۔ اسے بار بار سمجھایا جاتا ہے کہ گھر بنا کر رکھو۔ تیسرا اور سب سے بڑا خوف اسے معاشی بدحالی کا ہوتا ہے۔ شوہر کے بغیر کیسے گزارا کرے گی؟ بچوں کا کیا ہو گا؟ سر پر چھت کہاں سے آئے گی؟ اسی لیئے یہ بات ازحد ضروری ہے کہ عورت کو مناسب تعلیم ملے۔ جس سے وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکے۔ معاشی تحفظ نہایت اہم ہے۔ اس سے عورت خود اعتماد اور خود مختار ہوتی ہے۔ اور ظلم سہنے کے بجائے اس سے نجات حاصل کر سکتی ہے۔ معاشی خودمختاری آزادی ہے۔

کیسے مرد تشدد پر مائل ہوتے ہیں؟

تشدد پسند مردوں کی کوئی خاص پہچان نہیں ہے۔ یہ کسی بھی طبقے، معاشرے اور سماجی اور تعلیمی طبقے سے ہو سکتے ہیں۔ اس میں تربیت کا بھی کچھ ہاتھ ہے۔ ایسے معاشرے جہاں مردوں کی اجارہ داری ہے اور انہیں عورتوں پر کئی طرح کی فوقیت حاصل ہے وہاں مردوں کا عورتوں پر تشدد ایک طرح سے عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ جینڈر مساوات گھر سے شروع ہوتی ہے۔ لڑکے لڑکی میں فرق رکھ کر لوگ اپنی بیٹیوں کو تشدد اور بے توقیری کا عادی بناتے ہیں۔

مرد کو یہ غرور کہ وہ کما کر لاتا ہے اور اس کے بغیر عورت کا گذارا نہیں ہو سکتا وہ خود کو حاکم سمجھنے لگتا ہو اور عورت کی ذات کی نفی ہونے لگتی ہے۔ مرد اپنی طاقت کا مظاہرہ تشدد آمیز رویے سے کرتا ہے اور اسے اپنا حق سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ یہ ایک کمزوری ہے۔

اکثر مرد عورتوں پر تشدد کو جائز سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “عورت کو بار بار سمجھ کر تھک گیا ہوں، وہ سنتی ہی نہیں۔ کتی بار کہا کہ ایسا مت کرو لیکن اسے اپنی مرضی کرنی ہوتی ہے۔اب غصہ تو آئے گا نا۔ پھر غصے میں ہاتھ اٹھ جاتا ہے۔ ” اس طرح وہ اپنے رویہ کا دفاع کرتے ہیں اور سارا قصور عورت پر ڈالتے ہیں۔

دردناک بات یہ ہے کہ کچھ عورتیں بھی یہی سمجھتی ہیں کہ وہ مردوں کو خود تشدد پر اکساتی ہیں

جو باتیں مظلوم عورتوں کو سمجھ لینی چاہیں، وہ یہ ہیں۔

مرد کے تشدد پر خود کو الزام مت دیں۔

اس کے اس عمل کو یہ کہہ کر جائز مت کریں کہ “میں اس کو غصہ دلاتی ہوں۔ حجت کرتی ہوں۔ وہ دل کا برا نہیں۔ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے اسی لیے شک کرتا ہے۔ بعد میں معافی بھی مانگتا ہے۔ میرے لیے تحفہ بھی لاتا ہے”

یاد رکھیں جس مرد کا ہاتھ ایک دفعہ اٹھ جائے، وہ بار بار اٹھے گا۔

ناروے میں کرائسس سینٹزر قائم ہیں جو تشدد سے متاثرہ عورتوں کو پوری مدد فراہم کرتے ہے۔ان سینٹرز کا ایڈرس خفیہ ہوتا ہے۔ متاثرہ عورتیں پولیس کی مدد سے یہاں پہنچ سکتی ہیں۔ ایک فون سے مدد دروازے تک پہنچ سکتی ہے۔

یہ کرائسس سینٹرز عورتوں اور ان کے بچوں کو ایک محفوظ ماحول مہیا کر سکتے ہیں۔ طبی اور قانونی مدد مہیا کر سکتے ہیں۔ سوشل ویلفئر کے معاملات میں رہنمائی کر سکتے ہیں۔ بچوں کو اسکول لانے لے جانے کی ذمہ داری بھی لیتے ہیں۔ متاثرہ عورتوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں رہنمائی کرتے ہیں۔ خوداعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ اگر شخصیت کی توڑ پھوڑ ہوئی ہے اس کے لیے تھراپی کا انتظام بھی کر سکتے ہیں۔

ان سینٹرز کے کاموں میں کیا معاملات منع ہیں:

کبھی بھی کسی کو اپنے شوہر اور گھر والوں کو چھوڑنے کا مشورہ نہیں دیتے۔

کسی کے لیے فیصلے بھی نہیں کرتے۔ زندگی جس کی فیصلے بھی اسی کے۔ سپورٹ ملتی ہے اور مانگنے پر مشورے بھی۔

ایک رپورٹ کے مطابق ناروے کے ان کرائسس سینٹرز میں پناہ لینے والا سب سے گروپ پاکستانی عورتوں کا ہے۔ اس کے بعد انڈیا، مراکش ہیں۔ چند افریقی ممالک کی عورتیں جو انسانی اسمگلنگ کا شکار ہیں۔

گھر ایک محفوظ جگہ ہونی چاہئے۔ اگر عورت اور بچے وہاں محفوظ نہیں تو وہ گھر نہیں ہے۔ کرائسس سینٹر گھر نہیں لیکن ایک پناہ گاہ ضرور ہے۔ یہ کوئی ہوٹل یا تفریحی مقام بھی نہیں جہاں عورتیں چھٹیاں گزارنے آئیں۔ یہاں قوانیں بھی ہیں اور قواعد بھی جن کا احترام سب پر لازم ہے۔ یہاں مل جل کر رہنا ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی رازداری بھی رکھنا ہوتی ہے۔

یہاں پناہ لینے والوں کے بارے میں ساری معلومات خفیہ رکھی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).