اسد عمر: جیا بے قرار ہے آنے کو بہار ہے


جیا بے قرار ہے آنے کو بہار ہے
آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے۔

یہ اسلام آباد کی ایک خوبصورت پہاڑی دامن کوہ کا منظر ہے۔ آسمان پر ہلکے سرمئی بادلوں کا ڈیرہ ہے۔ بارش کی ننھی بوندیں گاڑی کی سکرین پر گر رہی ہیں۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے لیکن ہیرو کے چہرے پر ادسی اور غم ویاس کی تصویریں بن رہی ہیں۔ گاڑی کا دروازہ کھلتا ہے۔ خوبرو ہیرو گاڑی سے باہر نکلتا ہے۔ اس کی عینک کے شیشے پر بارش کی دو بوندیں گرتی ہیں اور منظر تھوڑا دھندلا جاتا ہے۔ ہیرو پر عزم ہے اپنی عینک اتارتا ہے اور پھر سے تان لگاتا ہے۔ آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے۔

یہ ہیرو کوئی اور نہیں وزیر خزانہ اسد عمر ہیں۔ ان کی محبوبہ ناظرین کی حاٹ فیورٹ ہیروئین آئی ایم ایف ہے۔ سین بدلتا ہے اور ایک سکرین نمودار ہوتی ہے۔ ویڈیو کانفرنس شروع ہو جاتی ہے۔ محبوبہ گانے کا جواب گانے سے دیتی ہے۔

چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔
حال میرے دل کا تمام لکھ دے۔

اسد عمر کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے۔ عینک کا شیشہ صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں ”میری جان! مجھے علم تھا آپ کی فرمائش کا۔ میں نے آپ کی فرمائیش سے پہلے ہی ایف بی آر کو خط لکھ دیا ہے۔ بجلی گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔ انکم ٹیکس بھی بڑھا دیا ہے“۔ اب لاؤ میرے ڈالر۔ میرا پیار میری محبت میرے حوالے کرو۔ اگر ڈالر نہ ملے تو میرے گھر والے مجھے نکال دیں گے۔ ظالم سماج مجھے جینے نہیں دے گا۔

پردہ سکرین پر ایک پاگل نمودار ہوتا ہے۔ ہا ہا ہا۔ اس کی آواز میں اتنی گونج ہے کہ آئی ایم ایف سہم جاتی ہے اور اسد عمر کو مخاطب کر کے کہتی ہے ”یہ امریکہ کا صدر ہے۔ اس کو ناراض کرکے میں واپس اپنے دیش نہیں جا سکتی“۔ اس کی ڈیمانڈ بتاؤ میں نے ہرحال میں ڈالر لینے ہیں۔ ”۔ ڈالر مہنگا کرو۔ “ اسد عمر گھبرائی آواز میں کہتے ہیں ”ڈالر تو پہلے ہی مہنگا کردیا“۔ ہا ہا ہا پھر وہی پاگل نمودار ہوتا ہے۔ ”وہ تو خود بخود ہوا ہے۔

نواز نے پکڑا ہوا تھا۔ ہم نے نواز کو ہی نکلوا دیا۔ اس میں آپ کا کیا کمال ہے۔ آپ نے ڈالر اور مہنگا نہ کیا تو نہیں دیں گے۔ اور ہاں چین کے ساتھ محبت کی جو پینگیں ڈال رہے ہو وہ ڈالر کو بالکل پسند نہیں۔ پاگل ایک اور قہقہہ لگاتا ہے اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میں سونے کی بہت کوشش کرتا ہوں لیکن اسد عمر کے چہرے پر بیچارگی مجھے نیند سے دور رکھے ہوئے ہے۔ نیم وا آنکھوں سے اسد عمر کو پیلے کپڑے پہنے سر پر استرا پھرے گنج اور بالوں کی لٹ نظر آتی ہے۔ اور ہاتھ میں کشکول پکڑے گانا گاتے نظر آتا ہے۔

دے جا سخیا راہ خدا تیرا اللہ ہی بوٹا لاوے گا۔

میری آنکھ پوری طرح کھل جاتی ہے۔ میں شرمندہ ہوں۔ اتنے برے خواب آنے لگے ہیں۔ اخبار اٹھاتا ہوں۔ دل خوش ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب نے، امارات اور چین نے ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ نواز جیل جا رہا ہے۔ اس کے لندن فلیٹ بیچ کر پرانے قرضے اتر جا ئیں گے۔ زرداری کے اربوں کے اکاونٹ قومی ملکئیت میں لے کر ملک کی غربت کم کر دی جائے گی۔ مدینے کی ریاست بنائی جارہی ہے۔ امیر امیر نہیں رہے گا غریب غریب نہیں رہے گا۔ میں اخبار ایک طرف پھیں کتا ہوں۔

ٹی وی چلاتا ہوں۔ ٹی وی بھی خوشخبریاں سنا رہا ہے۔ ڈیم بن رہے ہیں حکومت کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی ہسپتال ٹھیک کر رہے ہیں۔ تھر میں قحط ختم ہو گیا ہے۔ چیف آف آرمی اور آئی ایس پی آر حکومت کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ غریبوں کے لئے شیلٹر ہومز بن گئے ہیں۔ میں ایک بار پھر برے خواب دیکھنے پر شرمندہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).