دستِ قتل کے شایاں رہا کون ہے!


کیا قیامت ہے کہ ادھر نئے پاکستان کے سربراہ معماران قوم کی تکریم و پذیرائی کے لیے ان کی گاڑیوں پر مخصوص سٹکر چسپاں کرکے انہیں سلامی دینے کے احکامات صادر کر رہے ہیں، وزیر اعظم ہاؤس کو علم و تحقیق اور حکمت و آگہی کا گہوارہ بنانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، معاشرے میں فروغ علم اور قومی زبان کو اپنا جائز مقام دلوانے کے لیے اقدامات کررہے ہیں اور ادھر ایک جواں سال اور حرماں نصیب استاد کی زنجیروں میں جکڑی لاش نئے پاکستان کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کر رہی ہے۔ ان حالات میں علم و آگہی کے فروغ کی شمعیں جلانا کیسے ممکن ہے

فروغ علم بے قدری کی حالت میں نہیں ممکن
خس و خاشاک ہونے کو صدف سے کیوں نگیں نکلیں

یہ آہن و زنجیر میں جکڑی لاش سرگودھا یونیورسٹی کے روشن چراغ اور تردماغ پروفیسر جاوید کی تھی جو کیمپ جیل لاہور میں نیب کے مقدمے میں زیر حراست میں بے یارو مددگار ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ گئے۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے یونیورسٹی میں غیر قانونی طور پر کیمپس کھولے۔ اس سے پہلے اکتوبر میں نیب نے یونیورسٹی کے معزز پروفیسران کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیا تھا جس کے خلاف سارا ملک سراپا احتجاج بن گیا تھا۔ اس موقعے پر بھی ہمیں فیض کی مشہور نظم یاد آئی تھی مگر آج علم و آگہی کے چراغ جلانے والے، انسانی روح و قلوب و اذہان کو تازگی اور روئدگی دینے والے پروفیسر کی زنجیروں میں لپٹی لاش دیکھی تو دل و روح پر صد ہزار نشتر چلنے لگے۔

چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں

آج بازار میں پابہ جولاں چلو
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو

خاک برسر چلو خوں بداماں چلو
حاکم شہر بھی مجمع عام بھی

تیر الزام بھی سنگ دشنام بھی
صبح ناشاد بھی روز ناکام بھی

ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہر جاناں میں اب باوصفا کون ہے

دست قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رخت دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یارو چلو

ایک پروفیسر کی یوں جان لینے والا کوئی ادارہ ہے، شخصیت ہے، نظام ہے یا سماج;ذمہ دار جو بھی ہے بہرحال اس میں سفاکی، بربریت، حیوانیت، وحشت اور بہیمیت ایک بے رحم اور سنگدل قصاب سے بھی کئی درجے زیادہ ہے۔ قصاب جانور کے گلوپر تیز دھار خنجر چلانے کے بعد اتنا تو کرتا ہے کہ اس کی رسیاں کھول دیتا ہے تاکہ وہ تڑپ تو سکے، مچل تو سکے جان کنی کے عالم میں ایڑیاں تو رگڑ سکے۔ مگر یہ درندے تو قصاب سے بھی زیادہ شقی القلب اور چیرہ دست نکلے کہ جنہوں نے دم نکلنے کے بعد بھی پروفیسر کو زنجیروں سے آزاد نہیں کیا۔

کوئی قاتل اتنا بے ذوق بھی ہو سکتا ہے کہ رقص بسمل کا نظارے کا لطف بھی نہ لے؟ سنا ہے وزیراعلٰی پنجاب نے اس سانحے کا نوٹس لے لیا ہے۔ اللہ جانے ہر روز حاکموں کی طرف سے اس طرح کے لیے جانے والے سیکڑوں نوٹس جاتے کہاں ہیں؟ پروفیسر میاں جاوید پر درجنوں الزامات ہوں گے مگر ان میں سے کوئی الزام اب تک ثابت نہیں ہوا تھا۔ سب کو پتہ تھا کہ انہیں زیا بیطس ہے اور وہ انسولین لیتے ہیں مگر کسی ”محتسب“ کے دل میں ”مجرم“ کے لیے ہمدردی کا ننھا سا دیا بھی روشن نہیں ہوا۔ یہ سب نیب کے اس ”محتسب“ کی ناک کے نیچے ہوا جس کی اپنی ڈگری جعلی ہے۔ کیا پروفیسر جاوید اس ”مقدس گائے“ سے بھی بڑا مجرم تھا جس نے ملک دو لخت کردیا تھا اور اس کے باوجود اسے قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).