پروفیسر، متاری اور سویٹ گرل


جب سے ویکسی نیشن شروع ہوئی تھی، بچوں کے ایک ٹولے نے گلی میں غل غپاڑہ مچا رکھا تھا یعنی وہ سارا دن ہی کرکٹ کھیلتے رہتے تھے۔ ایک پانچ چھ سال کا بچہ گھر میں اندر آیا تو اس کے ہاتھ میں ہرے رنگ کی بال تھی۔ شاید وہ باﺅلنگ کراتے ہی اندر آگیا تھا کسی کام کی وجہ سے۔ وہ مجھے کوئی پیغام دے رہا تھا جس میں لفظ “مٹاری” بار بار دہرائے جاتا تھا۔

میں اس کی بات سمجھ نہیں پائی تو بیرونی امداد کیلئے کام والے لڑکے کو بلایا کہ وہ اس ننھے کی بات سمجھ کے مجھے سمجھائے۔ کام والا لڑکا جھکا دونوں ہاتھ گھٹنوں پہ رکھ کے اس کی بات سننے لگا۔ بات سن کے تو لڑکے کی شکل پہ گھمبیرتا آ گئی۔ یہ دیکھ کے تو میں فکر میں مبتلا ہوگئی۔ یا اللہ خیر یہ بچہ کیا بتا رہا ہے۔

بچہ بات کرکے باہر چلا گیا تو کام والے لڑکے نے مجھے بتایا بچہ پروفیسر مغز مار کی بیوی متاری کا مسیج دے کے گیا ہے۔ پیغام یہ ہے کہ پروفیسر مغز مار سکرات میں ہے۔ اس کا آخری وقت ہے، اگر آپ کو منہ دیکھنا ہے تو آجائیں۔

اچھا اچھا تو یہ بات تھی۔ اصل مسئلہ یہ ہوا تھا کہ وہ بچہ توتلا تھا متاری کو مٹاری کہتا تھا۔ دوجے میں اونچا سنتی ہوں، اسی وجہ سے ہم دونوں ایک دوسرے کو بات سمجھا نہیں پائے تھے۔

پروفیسر مغز مار کے بارے میں یہ ایک پریشان کن خبر تھی۔ میں نے چادر اوڑھی، جوتا پہنا اور باہر آگئی۔ اگر عورت نے چادر یا دوپٹہ نہ اوڑھا ہو اور پھر جوتا بھی نہیں پہنا ہو تو گلی کے شریر بچے پگلی سمجھ کے پتھراﺅ شروع کردیتے ہیں۔ میں پروفیسر کے گھرکے سامنے پہنچ چکی تھی۔ گھر کے سامنے ہی ایمبولینس کھڑی تھی۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ بیچارہ پروفیسر۔

میں نے ایمبولینس میں جھانکا کہ یہیں اس کا آخری دفعہ چہرہ دیکھ لوں۔ ایمبولینس کے اسٹریچر پر چھوٹے بچے لائنیں لگا کے بیٹھے ہوئے تھے۔ پوری ایمبولینس میں لڑکیاں عورتیں پھنس پھنسا کے بیٹھی ہوئی تھیں۔

یہ سب بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ معلوم ہوا کہ پروفیسر کے پڑوسی سرکاری ڈاکٹر کی فیملی جام شورو کے المنظر پر پکنک منانے جا رہی تھی۔ چلو ابھی بات ایمبولینس تک نہیں پہنچی۔ یہ سوچ کر مطمئن ہو گئی۔ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوئی تو دیکھا متاری نان پکوڑے پلیٹ میں رکھے کھانا کھا رہی ہے۔

جب مجھے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کیا پوچھتی ہو کیا بتاﺅں۔ جب سے پروفیسر سکرات میں پڑا ہے، سارا گھر ہی الٹا ہوگیا ہے۔ برتنوں کے میلے کپڑوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔ کھانا بھی صبح شام نان پکوڑے ہی کھاتی ہوں۔ بیچارے کا حال برا ہے، نہ کھاتا ہے، نہ پیتا ہے، نہ بولتا ہے اور نہ سوتا ہے۔ بس ایسے ہی سکرات میں پڑا ہے۔ بس کبھی کبھی باتھ روم تک گرتا پڑتا چلا جاتا ہے۔ میں جو کبھی کوئی بات پوچھوں تو کہتا ہے باجی آپ کون ہو۔ یہ سب سن کر تو میں بھی دکھی ہو گئی۔ اس دنیا میں جو آتا ہے، اس کو واپس بھی جانا ہوتا ہے۔ یہ دیکھ کے تو میں چونک گئی کہ سامنے والے کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا اور پروفیسر صوفے پہ گردن جھکائے بیٹھا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے بدھا کی طرح گیان میں بیٹھا ہو۔

اس سے پہلے تو میں یہ سمجھتی تھی کہ جب سکرات کا یعنی انسان کا آخری وقت چل رہا ہوتا ہے تو وہ لیٹنے والی پوزیشن میں ہوتا ہے پر پروفیسر تو بیٹھا ہوا دیکھنے میں آیا۔

کافی دیر سے میں پروفیسر کو اسی کیفیت اور حالت میں دیکھ رہی تھی۔ اس کا اس دنیا سے رابطہ ختم ہوچکا تھا۔ وہ ایک زندہ لاش تھا۔ میں اور متاری اسی موضوع پر ہی بات کر رہے تھے کہ پروفیسر کی بیٹھی ہوئی زندہ لاش میں کچھ حرکت پیدا ہوئی۔ وہ موالیوں کی طرح اٹھا اور گرتا پڑتا حسب معمول شاہ کا شعر گنگناتا باتھ روم کی طرف جانے لگا۔

میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آخری وقت میں شاہ لطیف کا کون سا شعر گنگنا رہا ہے۔ اس لئے دروازے کے قریب جا کے کان لگا کے سننے لگی۔

آئی لو یو آئی لو یو ہو رہی تھی ریل میں، شررر ر۔۔۔ شائیں شائیں ہورہی تھی ریل میں۔۔۔ پروفیسر یہ گاتے ہوئے باتھ روم میں چلا گیا۔ میں تو پریشان ہی ہو گئی۔ پروفیسر کی دماغی حالت کسی لحاظ سے بھی درست معلوم نہیں رہتی تھی۔ میں متاری سے پروفیسر کی بیماری کی ہسٹری لینے لگی تو پتہ چلاکہ ایک ہفتہ پہلے پروفیسر اپنا سات سو والا نوکیا موبائل بیچ کے پانچ ہزار والا کیو موبائل لے آئے تھے تب سے ہی چراغوں میں روشنی نہیں رہی۔

اب ساری بات میری سمجھ میں آچکی تھی۔ پروفیسر کے باتھ روم سے باہر نکلنے سے پہلے ہی میں نے بھاگ کے ان کا موبائل اٹھایا۔ وہ فیس بک میسینجر پر سویٹ گرل سے چیٹ کررہے تھے جو کچھ گرما گرم ٹائپ کی تھی۔ ان کے پیج پہ لائک اور کمینٹ بھی سویٹ گرل کے ہی زیادہ تھے۔ پروفیسر سویٹ گرل سے شادی کی تاریخ طے کرنے کیلئے ضد کر رہے تھے اور وہ لڑکی ٹالے جا رہی تھی۔

میں واپس آکے اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔ پروفیسر باتھ روم سے باہر نکلے۔ وہ لڑ کھڑاتے، گنگناتے صوفے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ تارا رو تارا رو ہو رہی تھی ریل میں۔ آئی لو یو آئی لو یو ہو رہی تھی ریل میں۔ میں نے متاری کو ساری صورت حال سمجھائی میں نے فیصلہ کرلیا کہ متاری کو سوتن سے بچاﺅں گی۔

میں نے جاسوسی سراغ رساں ادارے ڈاگ واچ میں کام کرنے والی سہیلی سے رابطہ کیا اور مدد مانگی تو اس نے کہا تم ایڈریس بتاﺅ، ابھی باس کو بھیجتی ہوں۔

آدھے گھنٹے میں ہی باس جو شرلاک ہومز کے جڑواں معلوم دیتے تھے اپنے کتے سمیت موجود ہوئے۔ میں تو سمجھتی تھی کہ جاسوسی کتوں کے بال بڑے نہیں ہوتے پر شاید باس نے اپنے پالتو کتے کو ہی سدھایا ہوا تھا۔ باس نے صوفے میں دھنستے ہوئے سنجیدگی سے کہا فوراً سویٹ گرل کی پروفائل نکالو۔ میں نے بھی جلد ہی سویٹ گرل کو سرچ کر لیا پیج کھول کے باس کے سامنے کیا تو اس نے میرا موبائل لے کے کتے کو سنگھایا۔ کتے نے فوراً ہی بھاگنا شروع کردیا۔ باس تیزی سے اٹھا۔ سویٹ گرل کہیں قریب ہی موجود ہے۔

کتا، کتے کے پیچھے باس، باس کے پیچھے میں اور میرے پیچھے متاری یہ دیکھنے کے لئے بھاگتی ہوئی آرہی تھی کہ آخر اس سوتن کہاں چھپی ہے۔ گلی میں ہم چاروں قطار میں بھاگ رہے تھے کہ میرے پیچھے بگ بینگ کا دھماکہ ہوا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو متاری زیادہ تیز بھاگنے کے چکر میں گر گئی تھی۔

پر یہ وقت متاری کو اٹھانے کا نہیں تھا۔ میں نے ضروری تعاقب کو ترجیح دی کہ دیر ہونے کی صورت میں اپنا ٹارگٹ کھو سکتی تھی۔ کتا پڑوس میں ہی موجود موڈرن ہیئر اسٹائل یعنی حجام کی دکان میں داخل ہونے کی کوشش کررہا تھا پر شیشے کا دروازہ کھول نہیں سکتا تھا۔

باس نے دروازہ کھولا تو دونوں داخل ہوگئے۔ حجام نے کسیلی نظر کتے پر ڈالی اور کہا ہم کتوں کے بال نہیں کاٹتے۔ باس نے سنی ان سنی کرکے اس لڑکے کو گریبان سے جاک ے پکڑا جس کے پائنچے کو کتے نے جا کے پکڑا تھا۔ لڑکا یہاں کام سیکھتا تھا اور موبائل پر بھی توجہ رکھتا تھا۔

سولہ سترہ سالہ لڑکے کے موبائل کو باس نے اپنے قبضے میں لے لیا۔ بعد میں پتا چلا کہ لڑکا پروفیسر سے کئی ہزار روپوں کا بیلنس لے چکا ہے۔ مزید اس نے بتایا کہ وہ صرف بیلنس لینے کے چکر میں ہی ایسا کیا کرتا ہے۔ یہ معاملہ وہیں ختم ہوگیا۔ پروفیسر کو اللہ نے زندگی دینا تھی اور وہ سکرات سے نکل آیا۔ متاری بھی بیوہ یا زندہ درگور ہونے سے بچ گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).