فضائی آلودگی


ماحول براہ راست انسان کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لئے اس کا صاف ستھرا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جس طرح ہم گندے کمرے یا گھر میں گزارا نہیں کر سکتے اسی طرح تعفن زدہ ماحول میں سانس لینا بھی محال لگتا ہے۔ ہر آنکھ کو سبزہ پسند ہوتا ہے مگر ہم نے اپنی پسندیدگی کو اپنی ضرورت کے تحت یا ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی چاہ میں تہس نہس کردیا ہے۔ انڈسٹریاں، پلازہ، سمیت دیگر وقتی ترقی میں منازل کے حصول کی خاطر فضا میں زہریلی مادے کی آمیزش سے اپنا قاتل بنا لیا ہے۔

گلوبل وارمنگ، اوزون کی تباہی، آبی و فضائی آلودگی، شور کی آلودگی اور شدید موسمی تبدیلیاں نہ صرف انسان بلکہ اس کرہ ارض کے لئے خطرہ بن چکی ہیں۔ جس کا فوری حل انسانی حیات کی بقا کے لئے بہت ضروری ہے۔ صنعتی مائع اخراج، ایندھن کے جلنے، جوہری اخراج، کان کنی کے اخراج، کرم کش زرعی ادویات کے غیر مناسب استعمال، تمباکو نوشی، درختوں کی کٹائی اور گردو غبار سے فضائی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔ فضائی سفاک قاتل بن چکی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 70 ہزار افراد فضائی آلودگی کا لقمہ بن جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی فضائی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ وطن عزیز میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب سالانہ ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ وطن عزیز کا سب سے بڑے شہر کراچی خطرناک حد تک فضائی آلودگی کا شکار ہے۔ عالمی انڈیکس اے کیو آئی کے مطابق اس وقت کراچی کی فضا میں آلودگی 331 درجے تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی خطرناک صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

درجہ بندی کے مطابق 151 سے 200 درجے تک آلودگی مضرِ صحت ہوتی ہے جب کہ 201 سے 300 درجے تک انتہائی مضر صحت اور 301 سے زائد درجہ انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ ماہرین کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کے ساتھ ہمارے پھیپھڑوں میں ایسے ننھے ننھے ذرات چلے جاتے ہیں جو بیماری کا باعث بنتے ہیں۔ سائنسدانوں کے خیال میں فضائی آلودگی دل کی سوجن کی وجہ بھی بنتی ہے جس کی وجہ سے دل کا دورہ پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثر ہونے کی صورت میں لوگوں کی ذہنی صلاحیت میں فرق پڑ سکتا ہے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے شجر کاری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ درخت قدرت کا انمول تحفہ ہیں۔ شجر کاری سے ناصرف ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ اس کے ذریعہ ہم تازہ آکسیجن بھی حاصل کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).