بینائی


دیکھنے کے لیے کسی مہارت و قابلیت کی اور نہ ہی دانائی کی ضرورت ہے۔ پرندے بھی دیکھتے ہیں۔ چوہے، بھیڑیں اور بھیڑیے بھی دیکھتے ہیں۔ انسان بھی دیکھتا ہے۔ انسان کبھی پرندوں کی طرح دیکھتا ہے، کبھی چوہوں کی طرح۔ ان میں سے کچھ بھیڑوں کی طرح تو کچھ بھیڑیوں کی طرح۔ سو دیکھنے کے لیے کسی مہارت کی ضرورت ہے اور نہ ہی دانائی کی۔ یہاں تک کہ انسان ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ پرندے ہر شے نقطوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔

ہر نقطہ یا تو باجرے کا دانہ ہے، یا گندم کا، یا ایک مردہ کیڑا، یا ہر وہ شے جو چگنے کے لیے موزوں ہو۔ ہر نقطہ دوسرے سے مختلف۔ لمحے بھی، زندگی ایک نقطے کی مانند ہے۔ یا پھر ایک لمحہ، ہر لمحہ ایک نقطہ ہے، جیسے باجرے کا ایک دانہ یا ہر وہ شے جو انہیں چگنے کے لیے موزوں لگے۔ جب ایک نقطہ تمام ہو گیا تو دوسرا اسی کی مانند چُگے جانے کے لیے تیار۔ پرندے انسان کی طرح دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لیکن انسان شاید پرندوں کی مانند ہو جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

چوہوں کے نزدیک ہستی ایک پیچ و خم دار بِل ہے۔ تمام بِل ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک سِرے پر غذا کا انبار اور دوسرے سِرے پر حریم خانہ۔ راہ کی طوالت بھی معین اور اس طوالت کو طے کرنے میں صرف ہونے والا وقت بھی معین ہے۔ آنا اور جانا، اسی فاصلے کو طے کرتے رہنا، یہی ایک مکمل زندگی ہے۔ جو پہلے بیت چکا ہے اب بھی وہی بیت رہا ہے۔ زندگی آمدورفت سے زیادہ کچھ نہیں۔ چوہے زندگی کو جس نظر سے دیکھتے ہیں، انسانوں میں سے کچھ انہی ہی کی مانند دیکھتے ہیں۔

لیکن شاید چوہے انسانوں کا سا ہو جانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اُس روز جب ایک جوان بھیڑ کو ذبح کا جا رہا تھا تو باقی بھیڑیں بھی وہیں پر موجود تھیں۔ لیکن میں نے دیکھا کہ وہ سب اس سانحے سے بے خبر رہیں۔ اُن کا دھیان گھاس کی طرف تھا۔ انسان کس قدر بھیڑوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ بھیڑیے کتوں سے لے کر انسانوں تک سب کو دیکھتے ہیں اور ’بھیڑیں‘ شاید اُن کی نظر میں ڈرپوک کتے ہیں جنہیں کھا جانا چاہیے۔ زندگی کو انسان کس نظر سے دیکھے، یہ میں نہیں جانتا۔

لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ انسان کی نگاہ تاریکیوں میں بھٹکتی نہ پھرے۔ زندگی میرے نزدیک جدا جدا نقطے نہیں ہے۔ نہیں بالکل نہیں۔ پرندوں کے لیے زندگی واضح ہے۔ ایک دانہ، گندم کا یا کسی اور شے کا۔ زندگی چوہوں کے لیے زندگی واضح ہے۔ آمدورفت۔ زندگی بھیڑوں کی نظر میں بھی واضح ہے۔ گھاس، گھاس اور گھاس۔ پرندے، چوہے، بھیڑیے زندگی کے بارے میں جس طرح خیال کرتے ہیں ویسا شاید اندھیرے کے بارے میں نہیں۔ روشنی تو بحر ظلمات کے درمیان موجود ایک چھوٹی کشتی ہے۔ سو دیکھنے کے لیے کسی مہارت و قابلیت کی اور نہ ہی دانائی کی ضرورت ہے۔ ’دیکھنا‘ میرے نزدیک جدوجہد کا نام ہے تاریکیوں سے روشنی کی طرف۔ (ترجمہ از کتاب نگارش فارسی، صفحہ 92۔ 93، پایھ دھم، 1396 ہ۔ ش، وزارت آموزش و پرورش، ایران)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).