ہمارا مارک زاکربرگ علی خان ترین


جب سے نوجوان کری ایٹو جینئیس علی ترین نے پی ایس ایل میں ٹیم خرید لی ہے تو پٹواریوں نے زمین و آسمان سر پہ اٹھا لیے ہیں کہ 27 سالہ طالب علم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟ یقیناً باپ کے کرپشن کے پیسے ہیں اور باپ چونکہ سیاست میں ہیں تو یقیناً یہ وہی معاملہ ہے جس کو بنیاد بنا کر ان کے قائد محترم نواز شریف کو نا صرف نا اہل کیا گیا بلکہ ان کے اولاد بشمول حسن و حسین نواز کو بھی چور و ڈاکو کی سرٹیفکیٹس دے کر مفرور قرار دیا گیا۔ لہٰذا تقابل تو بنتا ہے اگر نواز شریف کے بیٹے ہونے کی وجہ سے ان کے بیٹوں کی خون پسینے سے کمائی ہوئی جائیداد کو چوری کا مال قرار دے کر باب بیٹوں کو ذلیل کیا جا سکتا ہے تو علی ترین اور ان کی فیملی کے ساتھ بھی وہ سب کچھ کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

اب ان عقل سے عاری پٹواریوں کو کون سمجھائے کہ کچھ سمجھنے سے پہلے کھوپڑی کو کچھ ہلانا بھی پڑتا ہے مگر ان کھوتے خوروں کے پاس کھوپڑی ہوتی تو ہلاتے نا۔ تو پٹواریوں سن لو کہ اس نوجوان ہیرو کی سکسیس سٹوری۔

علی ترین ہیلی کوپٹر سیاست دان کہلائے جانے والا سیاستدان جہانگیر خان کے ہونہار فرزند ہیں۔ ان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سونے کا چمچ منہ میں لئے پیدا ہوئے سراسر غلط ہے، کیونکہ معاملہ بالکل الٹ ہے۔ اپ سونے کا چمچ منہ میں لے کر نہیں بلکہ پیدائش کے بعد جو چمچ ان کے منہ میں ڈالا گیا، اس چمکاری بچے نے اس چمچ کو ہی نہیں بلکہ دودھ کے پورے بوتل کو بھی سونا بنا دیا اور اسی سونے سے ان کے والد نے، جو اس وقت 7 سو روپے ماہانہ کے عوض پڑھاتے تھے، کاروبار شروع کیے۔

پھر مشرف دور میں علی ترین کے مشورے پر ہی ان کے والد سیاست میں آئے۔ اسی وقت علی ترین نے ایسا بزنس پلان بنا کر والد صاحب کو دیے جس کی بنیاد پر ان کے والد مہینوں کے اندر کھرپ پتی بن گئے۔ بزنس پلان ایسا شاندار تھا کہ نہ صرف ملک بلکہ پوری دنیا میں پاکستانی چینی کی ڈیمانڈ اتنی زیادہ ہو گئی کہ ”لا اف ڈیمانڈ“ کے انویزیبل ہاتھوں نے چینی کی قیمتوں کو آسمان تک پہنچا دیے جس سے نہ صرف ملک میں چینی کے کاروبار والے سیاستدانوں کا انقلاب امنڈ آیا بلکہ ملکی خزانہ بھی بھر گیا تھا۔ اب چینی سے منسلک جتنے بھی کاروبار ملک میں چل رہے ہیں ان سب کا بزنس پلان علی ترین کے جینئیس دماغ نے ترتیب دیے ہیں۔ ان کے والد کہہ چکے ہیں کہ حسن و حسین نواز مشورہ لینے ان کے پاس آتے تھے، وہ اصل میں علی ترین کے پاس آتے تھے۔

والد صاحب کو ٹائیکون سیاستدان بنانے کے بعد علی ترین خود بھی کچھ کرنا چاہتے تھے کیونکہ کری ایٹو جینئیس یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ 18 سال کے بعد بھی حسن و حسین کی طرح باپ کے پیسوں پر پلیں۔ لہٰذا اپنے لئے کچھ سوچا جو نہ صرف مختلف ہو بلکہ کچھ ایسا بھی ہو جس سے انسانیت بالخصوص غریبوں کا بھلا ہو۔ بہت غور و فکر کے بعد اس جینئیس نے دیسی مرغوں کے کاروبار کا فیصلہ کیا۔ اپ ان کی خود اعتمادی کو دیکھ لیجیے کہ جس وقت شریف ڈائینیسٹی کے بچے برائلر مرغی کھلا کھلا کر قوم کے شاہینوں کو کوا بنانے پر تلے ہوئے تھے، یہ نوجوان انسانیت کی فلاح پر لگے ہوئے تھے۔

اقبال کے اس شاہین کے خودی کا یہ علم تھا کہ ذاتی کاروبار شروع کرنے کے لئے بھی والد سے پیسے لینا گوارا نہ کیا بلکہ کاروبار میں شراکت کے عوض ابتدائی سرمایہ حاصل کیے۔ پھر کیا اپ نے اس سرمائے سے بہت سارے دیسی مرغیاں خرید لیے، پھر ان مرغیوں نے ڈھیر سارے انڈے دیے جن سے ڈھیر سارے بچے نکل آئے اور رفتہ رفتہ یہ صنعت پوری دنیا میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد منافع بخش اور انسان دوست صنعت کی شکل اختیار کر گئی۔ انہی پسوں سے علی نے پی ایس ایل کی ٹیم خرید لی ہے۔ بظاہر یہ ایک کاربار لگتا ہے لیکن درحقیقت اس میں بھی قوم کی فلاح ہی کی سوچ چھپی ہوئی ہے۔ اقبال کے اس شاہین نے جب دیکھا کہ ہمارے میدان ویران ہو چکے ہیں اور نوجوان منشیات کی طرف جا رہے ہیں تو قوم کے وسیع تر مفاد میں پی ایس ایل کی ٹیم خرید لی، جس سے نا صرف ہمارے میدان آباد ہوں گے بلکہ نوجوانوں اور ملکی معیشت کو بھی اس سے بے شمار فوائد ملیں گے۔

اپ سوچ رہے ہوں گے کہ آج تک کسی نے علی ترین کے اس بزنس کے بارے میں نہیں سنا۔ تو سن لیں کہ جینئیس اور انسان دوست لوگ کبھی بھی اپنے نیک کاموں کا دکھاوا نہیں کرتے۔ علی ترین بھی اپنے اس فلاحی صنعت کا ذکر کبھی نہ کرتے، مگر وسیع ملکی مفاد میں پی ایس ایل ٹیم خریدنے کے بعد پٹواریوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیے۔ اس لیے یہ سب کچھ بتانا پڑا۔ اب اپ مزید کہیں گے کہ علی کے دیسی مرغیوں کی صنعت پھر بھی راز میں رہا تو بتا ہی دیتے ہیں۔ افریقہ کی افلاس زدہ دیہات میں بل گیئٹس کے فلاحی تنظیم کے قائم کردہ دیسی مرغیوں کے فلاحی صنعت کے بارے میں تو اپ سب جانتے ہوں گے، یہی صنعت دراصل علی خان ترین کی ہے۔ نیا پاکستان بننے کے بعد علی ترین نے دیسی مرغوں کا بزنس پلان بن کر خان صاحب کو تحفہ کر دیا۔ اسے کہتے ہیں قومی سوچ۔

آپ مزید سوچ رہے ہوں گے کہ اتنی کم عمری میں یہ سب کچھ کرنا نا ممکن ہے۔ تو پٹواریو سن لو! کری ایٹو جینئیس ایسے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ فیسبک کے بانی زکر برگ کو ہی لیجیے جنہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی فیس بک تخلیق کی تھی۔ یہی حال بل گیئٹس کا ہے جنہوں نے یونیورسٹی سے نکالے جاتے ہی اپنا کاروبار شروع کیا تھا۔ آگے تاریخ گواہ ہے پھر اسی یونیوسٹی نے اعلان کیا کہ انہیں بل گیٹس پر فخر ہے۔ مگر چھوڑیں یہ سب اپ پٹواریوں کی سمجھ میں نہیں ائینگی۔ اس ملک میں علی ترین جیسے ٹیلنٹ کی نہ کبھی قدر تھی نہ کبھی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).