احتساب اور پیپلز پارٹی کی مزاحمتی سیاست؟


تحریک انصاف نے بلا شبہ معاشی عدم استحکام سے جڑے نظام کے ساتھ حکومتی باگ ڈور سنبھالی تھی جس وقت عمران خان کی حکومت برسراقتدار آئی تب قومی خزانہ خالی تھا زرمبادلہ کے ذخائر کم ترین سطح پر تھے اور ریاستی امور چلانے کے لئے پیسہ نہیں تھا۔ لیکن چند ماہ میں عمران خان نے ملکی معاشی استحکام کے لئے دوست ممالک سے رابطے کیے تو اس کے خاطر خواہ نتائج بھی سامنے آئے ہیں وزیر اعظم کے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دوروں سے صرف دلاسے نہیں بلکہ ملکی معشیت کو دوام ملا ہے۔

سعودی عرب، چین اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے حوصلہ افزاء بیل آؤٹ پیکج ملنے کے ساتھ ملک کی لوٹی گئی دولت واپس لانے کے لئے نیب کے ذریعے کی جانے والی کوششیں بھی حکومتی معاشی استحکام کا سبب بنیں گی جس کا کریڈٹ چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال متعدد بار لے چکے ہیں۔ ابھی تک ملک کی معشیت پٹڑی پر نہیں آئی جس کی وجہ سے ملک میں ہونیوالی شتر بے مہار مہنگائی کے سامنے بند باندھنے کے لئے کوئی خاظر خواہ اٹھائے جانیوالے اقدامات سامنے نہیں آئے اور اوپر سے ایک اور منی بجٹ کے ذریعے نئے تیکسوں کے نفاذ کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس سے بلا شبہ مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔

حکومت کو اس تناظر میں یہ سمجھنا چاہیے کہ سو دن کے بعد اگر چھ ماہ کی حکومت بھی تبدیلی کی جھلک دکھانے میں ناکام رہی تو ان حالات میں عوام کی کمر میں مزید خم پڑ جائے گا جس کا فائدہ حکومت کو نہیں بلکہ حکومت کے خلاف متحد ہونیوالی اپوزیشن کو ضرور ہوگا۔ اور ان حالات میں اپوزیشن بیان بازی کے ذریعے حکومت کو مات دیتی بھی نظر آرہی ہے آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے ساتھ ملک کی غریب عوام کو کوئی سروکار نہیں انہیں تو اپنی روزی روٹی سے سروکار ہے اگر مہنگائی اسی طرح ان کے رزق پر شب خون مارتی رہی تو اپوزیشن کو ایسے حالات ضرور موقع فراہم کر دیں گے جس سے حکومت عدم استحکام سے دوچار ہو جائے۔

آصف علی زرداری نے جو حیدر آباد میں سیاسی قوت کا جو مظاہرہ کیا اس میں انہوں نے کھلے لفظوں میں پیغام دیا کہ انہیں کرکٹ نہیں سیاست آتی ہے جس کا صاف مطلب ہے کہ عمران خان کی بجائے زمام اقتدار انہیں سونپ دیا جائے تو وہ بہتر حکومت کر سکتے ہیں حکومت انہیں کیسے سونپی جائے انہوں نے مڈٹرم الیکشن کی صورت نسخہ کیمیا کا بھی ذکر کر دیا آصف زرداری نے حکومت کو خبردار بھی کیا کہ جن سات ووٹوں پر حکومت کی عمارت قائم ہے وہ بھی ادھر ادھر کیے جا سکتے ہیں۔

میاں نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کی شیریں زبان میں سیاسی مزاحمت کی کڑواہٹ کیوں در آئی اس لئے کہ وہ خود ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کے گرد احتساب کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر آصف علی زرداری کی گرفتاری عمل میں آتی ہے تو سندھ سے کوئی تحریک سر ابھارتی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کسی بھی حیثیت میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسی مقبولیت نہیں رکھتے بلکہ ان کی سیاست کی عمارت خود ان دونوں ناموں کے ستونوں پر قائم ہے۔

جب ڈاکٹر عاصم اور عزیر بلوچ کو گرفتار کیا گیا تو آصف زرداری نے پاک فوج کے خلاف تلخ بیانات دیے اور کہا کہ آپ نے تین سال بعد چلے جانا ہے ہم نے ہمیشہ رہنا ہے ہمیں تنگ نہ کرو ایسا کرو گے تو ہم بھی آپ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے اب انور مجید اور دوسرے کی گرفتاری جے آئی ٹی کی متوقع رپوٹ منی لانڈرنگ کا پردہ فاش ہونے پر چار سال بعد پھر ان الفاظ کو دہرایا جا رہا ہے ان بیانات سے یہ اخذ کرنا دشوار نہیں کہ آصف زرداری نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا اب بچنا مشکل ہے اس لئے اب وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ اگر انہیں گرفتار کیا گیا تو ان کی کرپشن نہیں بلکہ فوج اور عدلیہ کی مخالفت کا نتیجہ ہو گا۔

آصف زرداری کا تحریک انصاف کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کٹھ پتلی قرار دینا بھی اس بات کا غماز ہے کہ ان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کروا رہی ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو سرکاری ترقیاتی منصوبوں، نئی سڑکوں کی تعمیر کے لئے دیے گئے ٹھیکوں کے عوض جعلی اکاؤنٹس میں رقوم جمع کروانے کا انکشاف لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے۔ سندھ میں میگا منی لانڈرنگ اسکینڈل اور جعلی اکاؤنٹس سے رقوم بیرون و اندرون ملک ٹرانزیکشن کی تحقیقات اب آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہیں اس حوالے سے جے آئی ٹی کے سامنے مشکوک افراد سے تفتیش کے دوران سندھ میں کرپشن و بد انتظامی کا نیا پنڈورا بکس کھل چکا ہے منی لانڈرنگ اسکینڈل کو اپنے منطقی انجام تک پہنچتا دیکھ کر آصف زرداری کے لب و لہجہ میں حکومت، فوج اور عدلیہ کے خلاف مزاحمت در آئی ہے۔

جب سے نیب نے سیاستدانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تب سے اپوزیشن جماعتیں سوائے پیپلز پارٹی کے اسے انتقامی سیاست قرار دیتی چلی آرہی ہیں پیپلزپارٹی نے اپنے بیان کے ذریعے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ حکومت اپنی پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرے لیکن جب پیپلز پارٹی کے قائدین کی کرپشن کے سلسلے میں نیب متحرک ہوا تو اب پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ ن کے ساتھ کھڑی ہو کر اسے انتقام کا نام دے رہی ہے۔ ملک میں پہلی بار یہ سننے میں آیا کہ رکشے والے، فالودے والے کے نام بھی اربوں روپے کے جعلی اکاؤنٹ ہیں اب یہ سمجھنے میں مشکل نہیں کہ آصف علی زردار ی کی حکومت اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی گرفتاری کا سیاسی اور انتقامی جواز تراشنے کے مترادف ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے آصف زرداری کے خلاف نیو یارک میں مبینہ طور پر ایک اپارٹمنٹ کی ملکیت انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر الیکشن کمیشن میں نا اہلی کا ریفرنس جمع کروا دیا ہے اور اس کے ساتھ جعلی اکاؤنٹس کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی جانیوالی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی ہے۔ مصالحت کی پروردہ پیپلز پارٹی کی اداروں کے ساتھ بڑھتی تلخیاں اس بات کی غمازی کر رہی ہیں کہ پہلی بار بڑی باریک بینی کے ساتھ آصف علی زردار ی اور دیگر کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف تحقیقات کی جارہی ہیں ان حالات میں مستقبل کا آئینہ جو نقشہ پیش کر رہا ہے کرپٹ افراد کے خلاف بہت بڑے آپریشن کی تیاریاں مکمل کی جا رہی ہیں جس کا اشارہ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے اپنے بیان میں دیا کہ مارچ تک جھاڑو پھر جائے گا۔

بہر حال اکہتر برس کے اس ملک کو جس طرح ملک کے سیاست دانوں، بیوروکریسی اور کلرک بادشاہ نے پرایا مال سمجھ کر نوچ کھایا ہے میں سمجھتا ہوں اسی بیدردی کے ساتھ قومی مجرموں کا احتساب کر کے قانون سازی کے ساتھ نشان عبرت بنایا جائے۔ جس ملک کا جھومر کرپشن کے لہو سے تر بتر ہو وہ ملک کبھی ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار نہیں ہو سکتا جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ کر کے اسے کرپشن فری نہیں بنایا جاتا تب تک ملک میں معاشی استحکام نہیں آسکتا نہ سرمایہ آئے گا نہ صنعت کا پہیہ چلے گا اور نہ ہی بیروزگاری کا خاتمہ ہو سکے گا یہ اسی صورت ممکن ہے کہ بلاتفریق، بلا امتیاز احتساب کر کے ملک کی لوٹی گئی دولت کی واپسی کو ممکن بنایا جائے تاکہ عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہو سکے۔ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).