قائد اعظم کس نوع کی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے؟


یہ محض ایک مفروضہ ہے جو قیام پاکستان کے کافی عرصہ کے بعد سامنے آیا تھا کہ تحریک پاکستان کا یہ نعرہ تھا کہ ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ“۔ جو لوگ تحریک پاکستان کے دور سے مانوس ہیں انہوں نے کبھی یہ نعرہ نہیں سنا اورنہ کہیں پڑھا تھا۔ ویسے بھی آج جو اس نعرہ کے داعی ہیں وہ اس زمانے میں قاید اعظم اور تحریک پاکستان کے مخالف تھے۔ بیشتر مذہبی پیشوا یہ دلیل پیش کرتے تھے کہ قاید اعظم جن کے انداز زندگی پر مغرب کی چھاپ ہے وہ کیونکر اسلامی شرعی مملکت قایم کر سکتے ہیں۔

راجہ صاحب محمود آباد امیر احمد خان، 1937 میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے سب سے نو عمر رکن تھے۔ سن 71 میں جب راجہ صاحب لندن کے اسلامی ثقافتی مرکز کے سربراہ تھے، میں نے ان سے ایک ملاقات میں دریافت کیا کہ آپ کا سیاسی طور پر قاید اعظم سے قریبی تعلق تھا اور آپ کے خاندان کے قاید اعظم کے خاندان سے قریبی روابط تھے، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ قاید اعظم پاکستان میں کس نوع کی مملکت کے قیام کے خواہاں تھے؟ راجہ صاحب دیر تک خلا میں گھورتے رہے اور ایک گہری سانس لینے کے بعد کہا کہ میں آپ کو ایک اہم واقعہ سناتا ہوں جس میں آپ کے سوال کا جواب مضمر ہے۔

کہنے لگے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب سن 41 میں پاکستان کی تحریک زوروں پر تھی۔ محمود آباد میں میرے والد صاحب کی صدارت میں مسلم لیگ کا جلسہ ہو رہا تھا۔ قاید اعظم ان کے برابر بیٹھے تھے۔ جب میری تقریر کی باری آئی تو میں نے بے حد جوشیلی تقریر شروع کی کہ پاکستان میں اسلامی شرعی ریاست قایم ہوگی جو ساری دنیا کے لئے اسلامی ریاست کا نمونہ ثابت ہوگی۔

میں ہکا بکا رہ گیا جب تقریر کے دوران جناح صاحب نے بڑے زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے تقریر کرنے سے روک دیا۔ کہنے لگے کہ یہ ہرگز مسلم لیگ کا موقف نہیں ہے۔ ہم پاکستان کو ہرگز Theocratic Sate مذہبی مملکت نہیں بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن حاصل کر نا چاہتے ہیں۔ اس ریاست کے حصول کے بعد پاکستان کے عوام یہ طے کریں گے کہ وہ کس نوعیت کا آئین اور نظام رایج کرنا چاہتے ہیں۔

راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ قاید کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ پاکستان میں اگر شریعت کے نفاذ کی بات کی گئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ کون سی شریعت۔ پھر کس فقہ کی شریعت، یوں ایک پنڈورہ بکس کھل جائے گا اور پاکستان ایسی دلدل میں دھنس جائے گا جس سے نکل کر اسے ترقی کی راہ پر چلنا محال ہوجائے گا۔

قاید اعظم پاکستان میں کس نوع کی مملکت کے قیام کے خواہاں تھے، ان کی گیارہ اگست 1947 کی وہ تقریر بنیادی حیثیت رکھتی ہے جو انہوں نے عبوری دستور ساز اسمبلی میں، صدر منتخب ہونے کے بعد کی تھی۔ اس تقریر میں قاید اعظم نے کہا تھا ”آج سے آپ پاکستان کی مملکت میں آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے کے لئے آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے کے لئے آزاد ہیں اور آپ جہاں بھی جی چاہے جانے اور عبادت کرنے کے لئے آزاد ہیں۔ آپ چاہے کسی بھی مذہب سے یا ذات سے یا عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں اس کا امور مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ یہ آیڈیل اپنے سامنے رکھیں گے تو وقت کے ساتھ آپ یہ محسوس کریں کے کہ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے، مذہب کے طور پر نہیں کیونکہ یہ ہر شخص کا ذاتی عقیدہ ہے بلکہ سیاسی طور پر ایک مملکت کے شہریوں کی حیثیت سے۔

پھر پاکستان کی پہلی کابینہ کی تشکیل سے بھی واضح ہوتا ہے کہ قاید اعظم پاکستان کو مذہبی ریاست نہیں بنانا چاہتے تھے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے جس کے صدر قاید اعظم منتخب ہوئے تھے، عبوری آئین کے تحت گورنر جنرل قایداعظم کو کابینہ کی تشکیل کے مکمل اختیارات تفویض کیے تھے۔ اور ان ہی اختیارات کے تحت قاید اعظم نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی جو پہلی کابینہ تشکیل کی تھی اس میں مشرقی بنگال کے دلت رہنما جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون مقرر کیا تھا۔ جوگندر ناتھ منڈل 1943 میں تحریک پاکستان کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور دلتوں کی حمایت حاصل کی تھی۔

گیارہ اگست 1947 کو جب پہلی دستور ساز اسمبلی نے قاید اعظم کو گورنر جنرل منتخب کیا تھا توقاید اعظم نے جو دستور ساز اسمبلی کے صدر تھے جوگندر ناتھ منڈل سے دستور ساز اسمبلی کی صدارت سنبھالنے کے لئے کہا تھا۔ قاید اعظم کا یہ اقدام در اصل گیارہ اگست کی تقریر کی عملی توثیق تھا۔ 1948 میں قاید اعظم کے انتقال کے بعد جوگندر ناتھ منڈل حالات سے اس قدر مایوس ہوگئے کہ 1950 میں انہوں نے وہ اپنی وزارت سے استعفی دے دیا اور ہندوستان منتقل ہوگئے۔

 پہلی کابینہ میں سر ظفر اللہ خان کو قاید اعظم نے وزیر خارجہ مقرر کیا تھا۔ ان کا تعلق احمدی جماعت سے تھا لیکن اس وقت یہ کوئی مسئلہ نہیں تھا اور نہ قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ اگر اس وقت جب احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا قاید اعظم زندہ ہوتے تو ان کی کیا رائے ہوتی۔ 1940 میں جب قاید اعظم آل انڈیا مسلم لیگ کو سیاسی طور پر تقویت دینے کے لئے وسیع بنیاد پر اتحاد قایم کر رہے تھے تو ان کے چند غیر مسلم لیگ اتحادیوں نے زور دیا تھا کہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیں۔ اس بارے میں 1944 کو کشمیر میں ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا تھا ”میں کون ہوتا ہوں کہ کسی شخص کو جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو، غیر مسلم قرار دوں“۔

قاید اعظم کے نظریات بالکل واضح تھے کہ وہ پاکستان میں کس نوع کی مملکت کے قیام کے خواہاں تھے۔ جیسے کہ انہوں نے راجہ صاحب محمو د آباد سے کہا کہ وہ پاکستان کو مذہبی ریاست بنانا نہیں چاہتے بلکہ پاکستان کے حصول کا مقصد صرف بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن حاصل کرناتھا جس میں مسلمان۔ چاہے وہ جس مسلک اور عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ پھر انہوں نے پاکستان کی جو پہلی کابینہ تشکیل کی وہ بھی مذہبی جنون سے مبرا پاکستان کی مملکت کے بارے میں ان کے وژن کی عملی طور پر عکاس تھی۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani