سابقہ و موجودہ حکومت کی آبی پالیسی، پانی کا ضیاع اور چوری


قلت آب ایک عالم گیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور بد قسمتی سے پاکستان ان 17 ممالک میں شامل ہے، جن کو قلت آب کے شدید خطرات لاحق ہیں۔

قیام پاکستان کے ابتدائی دور میں 50 لاکھ لٹر فی کس کے حساب سے پانی دستیاب تھا، جو اب 10 لاکھ لٹر فی کس کی سطح پر ہے اور ماہرین آب کی پیش گوئی کے مطابق 2025 تک فی کس دستیاب پانی کی سطح 8 لاکھ فی لٹر پر پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پاکستان ملکی ضرورت کا پانی 30 دن کے لیے ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جب کہ ماہرین آب کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کی یہ صلاحیت 120 دن ہونی چاہیے۔ دریاؤں اور بارشوں کے ذریعے وطن عزیز کو اندازاً 115 ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل ہوتا ہے، اس پانی کا 93 فی صد زراعت میں اور 5 فی صد گھریلو و صنعتی ضرورت میں استعمال ہوتا ہے۔ محکمہ آب رسانی کی غفلت اور آب رسانی کے نظام کی بد حالی کی وجہ سے زراعت کے لیے ترسیل کیے جانے والا 70 فی صد پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ وطن عزیز میں قریباً 35 فی صد پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ وطن عزیز میں 90 فی صد علاقوں کا زیر زمین پانی مضر صحت ہے۔

سابقہ حکومت قلت آب کے اس سنگین خطرے سے با خبر تھی۔ اس لیے قریباً تین دہائیوں سے التواء کی شکار نئی آبی پالیسی کے مسودے کی منظوری گزشتہ سال اپریل میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دی گئی۔ نئی آبی پالیسی میں پانی ذخیرہ کرنے کی 14 ملین ایکڑ فٹ کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی منظوری دی گئی۔ دیامر بھاشا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 6.4 ملین ایکڑ فٹ ہے۔

نئی آبی پالیسی میں 2030 تک سالانہ 4.6 ملین ایکڑ فٹ ضائع ہو جانے والے پانی کی سطح میں 33 فی صد تک کمی لانے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ نئی آبی پالیسی میں جولائی 2017 سے ترقیاتی بجٹ کا 10 فی صد حصہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے مختص کرنے کی تجویز بھی دی گئی اور 2030 تک ترقیاتی بجٹ کا 20 فی صد تک بڑھانے کی تجویز پر بھی اتفاق کیا گیا۔ صوبوں نے بھی نئی آبی پالسی کی تجاویز کی تقلید میں ترقیاتی بجٹ کا 10 فی صد حصہ پانی ذخیرہ کرنے کے منصوبوں کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔

نئے پاکستان کی موجودہ حکومت کی نظر سے یقیناً نئی آبی پالیسی کا مسودہ گزرا ہوگا۔ وزیر اعظم نے غالباً نئی آبی پالسی کو شک کی نگاہ سے دیکھا، اس لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور قوم سے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے چندے کی اپیل کی ہے۔ چیف جسٹس عدالت عظمی نے بھی موجودہ حکومت کی چندہ پالیسی کو تحسین کی نظر سے دیکھا اور بے دھڑک موقع بے موقع ڈیم کی تعمیر کے لیے چندے کی اپیلیں کر رہے ہیں اور عدالت عظمی تک میں ڈیم کی تعمیر کے لیے چندہ دینے کی ہدایت کر رہے ہیں۔ چندہ کب تک جمع ہوگا اور ڈیم کب تک تعمیر ہوگا، موجودہ حکومت کی نئی آبی پالیسی فی الوقت اس ضمن میں کچھ بتانے سے قاصر نظر آتی ہے۔

قلت آب سے متعلق سابقہ و موجودہ حکومت کی آبی پالیسی سے متعلق مندرجہ بالا حقائق اور گزارشات کے بعد چند گزارشات قارئین کرام کی خدمت میں عرض کرنی اشد ضروری ہیں۔ کیوں کہ شب و روز پانی کا ضیاع اور چوری نظروں کے سامنے ہوتا دیکھ کر دل شدید کڑھتا ہے۔ گلی کوچوں میں جگہ جگہ پانی بہتا یا کھڑا نظر آتا ہے۔ کوئی اپنا گھر دھو رہا ہے تو کسی کے گھر کے اوور ہیڈ ٹینک سے دھڑا دھڑ پانی برس رہا ہے۔ اور گھنٹوں خبر نہیں ہوتی کے موٹر بند کر دیں، محلے والوں کے سمجھانے کے با وجود بھی بعض افراد اپنے اس غیر ذمے دارانہ فعل پر نظر ثانی نہیں کرتے اور پانی کا ضیاع جاری رہتا ہے۔ اسی طرح گھروں کے اندرونی و بیرونی قطعات گھانس اور پودوں کو پانی دینے میں اکثر شہری غلو سے کام لیتے ہیں اور پانی بہ کر سڑکوں تک جا پہنچتا ہے، جس کی وجہ سے نئی تعمیر شدہ سڑک کا بھی بیڑا غرق ہو جاتا ہے۔

اسی طرح مساجد میں وضو کے استعمال شدہ پانی کو بھی جمع کر کے پیڑ پودوں میں ڈالنے اور مساجد کے بیرونی حصے کی صفائی و دھلائی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مساجد کے وضو خانوں، دفاتر اور گھروں میں اکثر نلکے ٹپک رہے ہوتے ہیں اور ان نلکوں اور ٹونٹیوں کی مرمت کرانے یا تبدیل کرانے میں بھی انتظامیہ و شہری غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر پینے کے پانی کی ٹونٹی سے ہر دس سیکنڈ بعد ایک قطرہ ٹپکتا ہو اور ضائع ہونے والے پانی کے اس قطرے کا حساب کتاب کیا جائے تو علم میں آتا ہے کہ ہر دس سیکنڈ بعد اس قطرے کے گرنے سے روزانہ قریباً 2050 لٹر، ماہانہ 61323 لٹر اور سالانہ 746103 لٹر پانی ضائع ہو سکتا ہے۔

پانی کے ضیاع کے بعد دوسرا اہم مسئلہ پانی کی چوری کا ہے۔ گاؤں دیہات میں کسی کی زرعی زمین کا پانی چوری ہو جائے تو نوبت قتل و غارت گری تک پہنچ جاتی ہے، شہروں میں معاملہ مختلف ہے۔ شہری روزانہ اپنی نظروں کے سامنے عوام کو پانی بہم پہنچانے والی لائنوں سے چوری شدہ پانی کو ٹینکروں میں بھر کر لے جاتا دیکھتے ہیں اور سوائے افسوس کے کچھ نہیں کرسکتے، کیوں کہ پانی کی یہ چوری انتظامیہ اور با اثر افراد کی ملی بھگت سے ہورہی ہے اور شہری بے بس ہیں۔

ہماری رہائشی کالونی کی دیوار کے ساتھ درجنوں ٹینکر صبح و شام بھر بھر کے جا رہے ہوتے ہیں۔ ایک محلے دار نے بتایا کہ جس جگہ سے ٹینکر پانی بھر رہے ہیں، وہاں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے ہائڈرینٹ کا نمایاں بورڈ لگا ہے۔ ضمنی انتخاب سے قبل موجودہ رکن سندھ اسمبلی ساجد جوکھیو جو سابقہ دور حکومت میں صوبائی وزیر ہونے کے ساتھ چیئرمین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ بھی رہے، سے علاقہ مکینوں نے پوچھا کہ کیا یہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کا ہائڈرینٹ ہے؟

تو انہوں نے لا علمی کا اظہار کیا۔ علاقہ مکینوں نے جناب ساجد جوکھیو سے یہ شکایت بھی کی کہ رات بھر ٹینکروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے، جس کی وجہ سے دھول مٹی اڑتی ہے، پانی گرنے سے سڑک کا ستیاناس ہوگیا ہے، وہیں اہل علاقہ کی نیند میں بھی خلل پڑتا ہے۔ ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد جناب ساجد جوکھیو نے اس مسئلے کے حل کا یقین دلایا تھا، لیکن مسئلہ ہنوز برقرار ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت قلت آب کے حوالے سے ٹھوس اور مستحکم پالیسی بنائے اور اپنائے۔ تاکہ عوام پر موجودہ حکومت کی کارکردگی پر ڈانوں ڈول اعتماد میں کمی واقع ہو۔ عوام اور انتظامیہ کو بھی پانی کے ضیاع اور چوری کے حوالے سے ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ شہریوں کو پیڑ پودوں، گھانس کو اتنا ہی پانی دینا چاہیے، جس کی ضرورت ہو۔ ورنہ زائد پانی دینے سے جہاں پانی کا ضیاع کا ہوتا ہے، وہیں پیڑ پودے اور گھانس کا بھی نقصان ہو سکتا ہے۔ ٹپکتے نلوں اور ٹونٹیوں کی بر وقت مرمت کرا لینی چاہیے۔ شہری انتظامیہ کو بھی غیر قانونی ہائڈرنٹس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ عوام اور انتظامیہ کے تعاون سے پانی کے ضیاع اور چوری کی روک تھام ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).