نواز شریف: نیلسن منڈیلا یا عادی مجرم


”چل نس جا۔ نئیں نسنا۔ جا چلا جا۔ ناں بھائی ناں۔ چل پھر کوٹ لکھپت جیل، شہباز کے ساتھ اڑی اڑی کھیل۔ سات سال قید، اڑھائی کروڑ ڈالر جرمانہ، دس سال کے لئے نا اہل، غیر منقولہ جائیداد ضبط۔ اور کوئی حکم! “ یہ وہ فیصلہ ہے جو ایک بار پھر نواز شریف کی قسمت میں لکھا گیا، یہ پہلا موقع نہیں، یہ چوتھی بار ہوا ہے، نواز شریف تین بار وزیر اعظم رہے تو چار بار جیل دیکھ چکے ہیں، ان کی زندگی میں عروج اور زوال کی ایک داستاں ہے، کبھی ایوان اقتدار تو کبھی جیل کی سلاخیں مقدر ٹھہریں، جب ملک میں رہنا خطرناک ہوا تو ملک سے باہر دھکیل دیا گیا، کارکن انہیں نیلسن منڈیلا قرار دیتے ہیں تو سیاسی مخالفین انہیں کرپٹ، چور اور ڈاکو کے القابات سے یاد کرتے ہیں، آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ نواز شریف کو بار بار جیل جانا پڑتا ہے؟

سابق وزیراعظم نواز شریف جنہیں گزشتہ سال نا اہل قرار دیا گیا جنرل ضیا الحق شہید کے دور میں سیاست سے روشناس ہوئے، انہی کے زیر سایہ تربیت ہوئی۔ اس دور میں لمبے عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے۔ کچھ عرصہ پنجاب کی صوبائی کونسل کا حصہ رہنے کے بعد 1981 میں وزیر خزانہ پنجاب بن گئے۔ آمریت کے زیرِ سایہ 1985 میں ہونے والے غیرجماعتی انتخابات میں قومی اور صوبائی نشستوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔

9 اپریل 1985 کو وزیراعلیٰ پنجاب بنے، 31 مئی 1988 ء کو جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا تاہم میاں صاحب کو بطور نگران وزیراعلیٰ برقرار رکھا۔ جنرل ضیاء نے ایک بار نواز شریف کو اپنی عمر لگ جانے کی بھی دعا دی۔

1988 میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لیے آئی جے آئی بنی۔ پیپلز پارٹی تو نہ ہاری لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک بار پھر میاں صاحب کے حصے میں آگئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو 1990 میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں پہلی بار میاں صاحب وزیراعظم بن گئے۔ تاہم اپنی پانچ سال کی مدت پوری نہ کرسکے اور انہیں اس وقت کے صدر نے ان کے عہدے سے فارغ کردیا۔ اگرچہ ملک کی عدالتِ عظمیٰ نے آئینی مقدمے کے بعد عہدے پر بحال کردیا لیکن جولائی 1993 میں انہیں صدر کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔

1997 ء میں ایک بار پھر الیکشن میں کامیاب ہوکر مسند اقتدار پر براجمان ہوئے لیکن یہ بہت عارضی ثابت ہوا اور دو سال بعد ہی فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے طیارہ سازش کیس کا بہانہ بنا کر چلتا کیا۔ اس بار نواز شریف کی بڑی غلطی فوج سے پنگا تھا۔ اکتوبر 1999 میں نواز شریف نے اس وقت کے فوج کے سربراہ پرویز مشرف کو ہٹا کر نئے فوجی سربراہ کو تعینات کرنے کی کوشش کی۔

کچھ عرصہ جیل میں رکھا گیا، مقدمات چلے اور جنرل مشرف کے ساتھ ایک خفیہ معاہدے کے بعد سعودی عرب چلے گئے۔ 2006 میں میثاق جمہوریت پر بے نظیر بھٹو سے مل کر دستخط کیے اور فوجی حکومت کے خاتمے کے عزم کا اعادہ کیا۔ 23 اگست 2007 کو عدالت عظمٰی نے شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے ان کی وطن واپسی پر حکومتی اعتراض رد کرتے ہوئے پورے خاندان کو وطن واپسی کی اجازت دے دی۔ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد نواز شریف اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب کے پرویز مشرف پر دباؤ کے نتیجے میں 25 نومبر 2007 کو لاہور پہنچ گئے۔

2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے واضح اکثریت حاصل کی۔ اس بناء پر وہ تیسری بار وزیراعظم پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، نواز شریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھاتے ہی اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصا ف کے لئے متنازعہ بن گئے۔ عمران خان نے تین سال تک دھاندلی کا ڈھنڈورا پیٹا اور چین نہیں لینے دیا۔ نواز شریف حکومت کی بدقسمتی تھی کہ اسی دورانیے میں سانحہ ماڈل ٹاؤن پیش آگیا جس میں 14 افراد قتل اور 90 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ یہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے کارکن تھے۔ انہوں نے اپنے کارکنوں کو انصاف دلان کے لئے انقلاب مارچ کیا اور عمران خان نے دھاندلی کے خلاف لانگ مارچ۔ شہر اقتدار میں دھرنا ہوا، آرمی چیف کی مداخلت پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف سمیت 9 افراد کے خلاف قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی۔

یہ معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا کہ پاناما لیکس کے ذریعے شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کا پول کھل گیا۔ اپوزیشن نے خوب واویلا کیا، وزیراعظم نے پارلیمنٹ میں معاملہ حل کرنے کا اعلان کیا لیکن حکومتی سرد مہری سے ٹی او آرز پر اتفاق نہ ہوسکا اور معاملہ عدالت تک جاپہنچا۔ نواز شریف کو پاناما کیس میں پہلے صرف 2 ججوں نے نا اہل قرار دیا اور انہیں موقع دیا کہ وہ اپنے جرائم مان لیں، لیکن نواز شریف نے جے آئی ٹی میں جانے کو ترجیح دی۔

وہاں سے ان کی کرپشن کی ہوشربا داستان سامنے آگئی۔ پھر انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جہاں سے وہ جمعہ کے مبارک دن پانچ صفر سے نا اہل قرار پائے۔ پھر وہ اپیل میں گئے اور ایک اور جمعہ کے مبارک دن اپیل میں بھی نا اہل قرار دیے گئے۔ پھر انہوں نے پارلیمنٹ سے ترمیم منظور کروا کر پارٹی صدارت اپنے پاس رکھنے کی کوشش کی اور سپریم کورٹ نے انہیں پارٹی صدارت سے بھی نا اہل قرار دے ڈالا۔

عام انتخابات سے قبل لندن سے لاہور آئے ائیر پورٹ سے اترتے ہی انہیں احتساب عدالت سے مجرم قرار دیے جانے کے بعد جیل میں ڈال دیا گیا، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر بھی ان کے ساتھ قید رہے، قید کے دوران ہی اہلیہ کلثوم نواز انتقال کرگئیں، اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قراردیتے ہوئے ضمانت پر رہا کر دیا۔

جب میں کالج کا طالب علم تھا تو میاں چنوں کے قریب ہمارے گاؤں میں ربو نام کا ایک شخص رہتا تھا جس کے جیل میں دن زیادہ تو گھر میں کم گزرتے تھے، گردو نواح کے کسی بھی پنڈ میں چوری ہوتی تو ربو پکڑا جاتا، منشیات کا کوئی کیس آتا تو ربو پکڑا جاتا، لوگ ربو سے پو چھتے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو؟ پولیس صرف تمہیں ہی کیوں پکڑتی ہے؟ ربو کہتا میں ایک دو بار کپاس کے کھیت سے پھٹی چنتے، دوسری بار جانوروں کے لئے گندم کا بھوسہ، تیسری بار چرس پیتے پکڑا گیا تب سے پولیس مجھے عادی مجرم سمجھتی ہے، میں جتنی صفائیاں پیش کرلوں جیل میرا مقدر ہی ہے، کارکن نواز شریف کو ہیرو اور نیلسن منڈیلا کہتے ہیں، مخالفین انہیں چور ڈاکو جیسے القابات سے پکارتے ہیں میں کشمکش میں کہ کیا کہوں۔ ربو کی کہانی سے لگتا ہے نواز شریف پھر آئے گا، مریم نواز بھی کہتی ہیں کہ وہ آئے گا۔ بہت جلد!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).