نواز شریف کی سزا نوشتہ دیوار تھی


ملک کے تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کو چوالیس برس قبل قائم کی گئی کمپنیوں اور ان کے لئے فراہم کیے گئے سرمائے کا ’ثبوت‘ فراہم کرنے میں ناکامی پر آج دوسری بار اسلام آباد کی ایک احتساب عدالت نے سزا سنائی ہے۔ اس بار انہیں العزیزیہ ریفرنس میں سات برس قید اور خطیر جرمانہ کی سزا دی گئی ہے۔ اس سے پہلے ایک دوسری احتساب عدالت نے اسی سال جولائی میں ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو دس برس قید کی سزا سنائی تھی۔ جس وقت ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز لندن میں شدید علیل تھیں، نواز شریف اور ان کی اہلیہ کو اڈیالہ جیل میں قید رکھا گیا تھا۔ اس طرح وہ آخری ایام میں کلثوم نواز کے ساتھ نہیں تھے۔ آج فیصلہ کا اعلان ہونے کے بعد نواز شریف کو ایک بار پھر اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا ہے۔

یہ کہنا یا سمجھنا سادہ لوحی ہوگی کہ ایک طویل قانونی جد و جہد کے بعد سابق وزیر اعظم کو دی جانے والی اس سزا کے سیاسی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ تاہم فی الوقت اس معاملہ پر کوئی سوچنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ برس جولائی میں وزارت عظمی سے نا اہل قرار دیتے ہوئے نیب کو ان کے خلاف تین ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔ اب ان تینوں ریفرنسز کا فیصلہ سامنے آچکا ہے۔ ایک میں انہیں دس برس قید و جرمانہ کی سزا دی گئی تھی جس کے خلاف اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے نواز شریف کے علاوہ مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہائی کورٹ کے خیال میں اس سزا کی قانونی بنیاد موجود نہیں تھی۔

آج کا فیصلہ جج ارشد ملک نے سنایا اور نواز شریف کو فلیگ شپ انوسٹ منٹ ریفرنس میں بری کردیا گیا جبکہ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں سزا دی گئی ہے۔ یہ تینوں مقدمات ایک ہی سرمایہ کاری کے بارے میں ہیں جس کا آغاز 1974 میں متحدہ عرب امارات میں سرمایہ منتقل کرنے سے ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے صنعتوں کو قومیانے کی پالیسی پر عمل درآمد کرکے دوسرے صنعتکاروں کی طرح شریف خاندان کو بھی بیرون ملک سرمایہ کاری پر مجبور کیا تھا۔ تاہم اب اس کا بوجھ ملک کی ایک بڑی پارٹی کے تاحیات قائد اور تین بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے شخص پر ڈالا جارہا ہے۔

شریف خاندان ان تینوں ریفرنسز کو ایک ہی معاملہ سے متعلق ہونے کی بنیاد پر ایک ہی مقدمہ کا حصہ بنانے پر اصرار کرتا رہا ہے۔ تاہم احتساب عدالتوں نے ایسی سب درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔ نواز شریف کا یہ مؤقف بھی رہا ہے کہ وہ خاندانی کاروبار کا حصہ نہیں رہے۔ ان کے والد میاں محمد شریف کاروبار دیکھتے تھے اور سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں جلاوطنی پر مجبور ہونے کے بعد انہوں نے اپنے پوتوں کو سعودی عرب میں العزیزیہ اسٹیل مل اور برطانیہ میں فلیگ شپ کمپنی بنانے کے لئے سرمایہ فراہم کیا تھا۔ لیکن استغاثہ اور نیب اس معاملہ میں نواز شریف کو ملوث کرنے اور سزا دلوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

تاہم نواز شریف کو ملنے والی یہ سزا کسی حیرت کا موجب نہیں ہے بلکہ اسے نوشتہ دیوار سمجھا جارہا تھا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے علاوہ ملک کے وزیر اعظم عمران خان شریف خاندان کے علاوہ آصف زرداری کو ڈاکو اور لٹیرا قرار دیتے رہے ہیں۔ عمران خان نے جب بھی ملک کی معاشی بدحالی اور قرضوں کی صورت حال کا ذکر کیا ہے، انہوں نے سابقہ حکمرانوں پر لوٹ مار اور کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ ’کسی کو نہیں چھوڑیں گے‘ ۔ اس لئے آج جج ارشد ملک کی طرف سے سزا دینے کا حکم حیران کن نہیں ہے۔ البتہ اسی نوعیت کے دوسرے ریفرنس یعنی فلیگ شپ سرمایہ کاری کے معاملہ سے انہیں صاف بری کرنا حیرت کا سبب ہونا چاہیے۔ معزز جج کو اس بات کا جواب اپنے تفصیلی فیصلہ میں فراہم کرنا ہوگا کہ کس بنیاد پر نواز شریف کو ایک ہی ذریعہ سے فراہم ہونے والے وسائل کے الزام میں بری اور دوسرے میں سزا دی گئی ہے۔ اصولی طور پر انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ کی طرح فلیگ شپ ریفرنس میں بھی سزا ہونی چاہیے تھے۔

یہ تینوں مقدمات یوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان میں فراہم ہونے والا سرمایہ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے فراہم کیا تھا۔ اسے ستر کی دہائی میں ملک سے منتقل کیا گیا اور متحدہ عرب امارات میں مختلف کاروبار کرنے کے بعد 12 ملین درہم قطری شاہی خاندان کے ایک شہزادے کے ساتھ کاروبار میں لگائے گئے تھے۔ عدالتوں نے نواز شریف کا یہ مؤقف مسترد کرنے کے علاوہ کہ وہ کبھی کسی خاندانی کاروبار کا حصہ نہیں رہے اور یہ کہ سرمایہ کاری ان کے والد نے براہ راست ان کے بیٹوں حسن اور حسین کے ذریعے کی تھی، یہ تسلیم کرنے سے بھی انکار کیا ہے کہ شریف خاندان نے کبھی قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ کوئی سرمایہ کاری کی تھی۔

استغاثہ اور عدالتیں پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر انحصارکرتی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ قطری شہزادہ شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے سوالوں کے جواب دینے سے انکار کیا تھا جبکہ نواز شریف کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے سے بات کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ تاہم اب ایک ریفرنس میں بری کرکے والی احتساب عدالت کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ ایک مقدمہ میں جس دلیل یا ثبوت کو مسترد کررہی ہے، اسے دوسرے میں کس بنیاد پر قبول کیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہائی کورٹ میں اپیل کے دوران اس مقدمہ کے مزید پہلو سامنے آئیں اور یہ دیکھنے کو ملے کہ احتساب عدالتوں نے کہاں اور کیوں ٹھوکر کھائی ہے۔

اس ٹھوکر کا قضیہ یوں بھی پیچیدہ ہے کہ جولائی میں جج محمد بشیر نے بھی مقدمہ کا فیصلہ سنانے سے قبل مقررہ وقت کو متعدد بار ملتوی کیا اور تقریباً ویسی ہی صورت حال آج بھی جج ارشد ملک کی عدالت میں دیکھنے میں آئی۔ صبح کا وقت دے کر تین بجے سہ پہر کو فیصلہ کا اعلان کیا گیا۔ ابھی تفصیلی فیصلہ بعد میں سامنے آئے گا، اس لئے اس کے قانونی پہلوؤں اوردلائل پر ماہرین رائے بھی اسی وقت دے سکیں گے۔ تاہم جب ایک احتساب جج کے بعد دوسرا بھی اسی قسم کی بدحواسی کا اظہار کرتا ہے اور وہی ہتھکنڈے دیکھنے میں آتے ہیں تو اس کنفیوژن میں شفایت ہی سب سے پہلا شکار ہوتی ہے۔ شریف خاندان کے علاوہ ان کے حامی مسلسل یہ مانتے ہیں کہ یہ سیاسی فیصلے ہیں اور اسٹبلشمنٹ کو للکارنے کی بنیاد پر پہلے نواز شریف کو وزارت عظمی سے برطرف کروایا گیا اور سزا دلوا کر نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس طرح یہ معاملہ کسی جرم کے ارتکاب کا نہیں رہتا بلکہ سیاسی بنیادوں پر لیڈروں کو ہراساں کرنے کا مقدمہ بن جاتا ہے۔ نواز شریف اسی بنیاد پر یہ مقدمہ لڑیں گے کیوں کہ قانونی راستے مسدود کیے جاچکے ہیں۔

ان معاملات کے قانونی کی بجائے سیاسی ہونے کی سب سے بڑی دلیل آج وزیر اعظم عمران خان نے فراہم کی ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے ایک اجلاس کے دوران احتساب عدالت کا فیصلہ سننے کے بعد کہا کہ ’عدالت کے فیصلہ سے سچ سامنے آگیا ہے‘ ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے دعویٰ کیا کہ ملک کے سابق حکمرانوں نے اپنے دور اقتدار میں خوب دولت بنائی ہے۔ اور ملک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ عمران خان اتنے سادہ نہیں ہو سکتے کہ انہیں یہ خبر نہ ہو کہ نواز شریف کے خلاف معاملہ 44 برس قبل شروع ہونے والی سرمایہ کاری کے بارے میں ہے جس کا ان کے پنجاب کا وزیر اعلیٰ رہنے یا ملک کا تین بار وزیر اعظم بننے کے ادوار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایون فیلڈ یا العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف سرکاری فنڈز کی خرد برد کا الزام نہیں لگایا گیا۔ ان پر اپنے وسائل سے بہتر زندگی گزارنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سخت ترین سزا دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔

وزیر اعظم کا احتساب عدالت کے فیصلہ پر تبصرے کو اگر گزشتہ روز وزیراطلاعات فواد چوہدری کے بیان کی روشنی میں پڑھا جائے کہ نواز شریف کو سزا ملے گی کیوں کہ یہ معاملہ بہت سادہ ہے۔ اسی طرح آصف زرادری بھی سزا پاکر سیاست سے باہر ہوں گے، تو یہ قیاس کرنا دشوار نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت نہ صرف ان سزاؤں پر خوش ہورہی ہے اور مخالف سیاست دانوں کی قانونی مشکلات کو اپنے سیاسی فائدے میں استعمال کررہی ہے بلکہ وہ اس بات کی پوری توقع لگائے ہوئے تھی کہ نواز شریف کو سزا ہوجائے گی۔ کیا کسی نظام انصاف میں منصف کے دل و دماغ کا حال پڑھنے والے حکمرانوں کے ہوتے اسے انصاف کہا جاسکتا ہے۔

سابقہ حکمرانوں کی غلطیوں یا غلط کاریوں کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے لیکن انہیں مشکوک مقدموں میں سزا دلوا کر اور ان سزاؤں کا پہلے سے اعلان کرکے یا عدالتی فیصلہ کو ملکی معاشی مسائل سے نتھی کرکے ان معاملات کو تحریک انصاف کے قائدین خود سیاسی بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے بعد آصف زرداری کو ممکنہ سزا اور قید کے بعد سامنے آنے والی صورت حال میں تحریک انصاف کو جس چیلنج کا سامنا کرنا ہو گا، اسے اس پارٹی کی اپنی کوششوں کا نتیجہ ہی کہنا پڑے گا۔

نواز شریف کی سزا کے بعد مسلم لیگ (ن) کی باقی ماندہ قیادت کو ہراساں اور خوف زدہ کرتے ہوئے پارٹی کو توڑنے اور شریف خاندان کی سیاسی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن عمران خان سے زیادہ کسی کو اس بات کا ادراک نہیں ہونا چاہیے کہ عوام میں مقبولیت ملنے کے بعد راستے کی ہر دیوار گرنے لگتی ہے۔ عمران خان اقتدار تک خواہ کوئی بھی سیاسی سمجھوتہ کرکے پہنچے ہوں، لیکن اس مقام تک پہنچانے میں عوام سے ملنے والی حمایت نے ہی کردار ادا کیا ہے۔

نواز شریف بھی اس ملک کے مقبول لیڈر ہیں۔ ان کو ملنے والی سزا سے ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ کیوں کہ اگر انصاف کا فیصلے آنے سے پہلے چرچا کیاجائے گا تو احتساب عدالت کا جج خواہ فیصلہ میں کچھ ہی لکھے عام شہری اسے انصاف کا خون ہی قرار دے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali