افغانستان سے امریکی انخلا خوش آیند ہے؟



خبر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں 14 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، جن میں سے ابتدائی طور پر 7 ہزار کو واپس بلایا جا رہا ہے۔ وزارت دفاع کے حکام نے میڈیا کو بتایا کہ 7 ہزار فوجی اہل کاروں کی واپسی میں 100 روز لگ سکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی میڈیا نے وزارت دفاع کے ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر نے افغانستان سے نصف امریکی فوجیوں کے انخلاء کے زبانی احکامات دیے ہیں۔

غیرملکی خبررساں ادارے کو اہم امریکی عہدیدار نے بتایا ہے کہ ٹرمپ نے یہ فیصلہ اسی وقت کیا، جب انھوں نے پینٹاگون کو بتایا کہ وہ شام سے تمام امریکی فوجی دستوں کا انخلا چاہتے ہیں۔ اس حالیہ اعلان نے کابل میں موجود غیر ملکی سفارت کاروں کو چونکا دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے شام اور افغانستان سے فوج واپس بلانے کے فیصلے سے مشرقِ وسطیٰ اور افغانستان میں غیر متوقع صورت احوال سامنے آ سکتی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اپنی تمام تر طاقت استعمال کے باوجود اس خواب کو حقیقت بنانے میں کام یاب نہیں ہو سکا، جس کے متعلق اس نے یہ خیال کرلیا تھا، کہ افغان ایک کم زور ملک ہے اور اس کم زور ملک پر وہ مکمل دست رس حاصل کرنے میں کام یاب ہوکر ان قدرتی وسائل پر قابض ہو جائے گا، جو اس کی زمین میں مدفون ہیں اور اگر ان کو بازیاب کر لیا جائے تو اتنی بے تحاشا دولت کمائی جا سکتی ہے، کہ جس کو صدیوں بے دردی کے ساتھ بھی استعمال کیا جائے تو اس کا ختم ہونا ممکن نہیں۔

اپنے ملک میں ہونے والی تخریب کاری (نائن الیون) کو جواز بنا کر وہ دنیا کے مسائل میں گھرے، آپس میں اختلافات کا شکار اور ایک غریب و پس ماندہ ملک پر پوری قوت سے حملہ آور ہونے کے بعد، امریکا یہ سمجھے بیٹھا تھا کہ وہ افغانستان کی سر زمین کے چپے چپے پر قابض ہوجائے گا اور وہاں کے وسائل کو اپنے قبضے میں کر کے دنیا کے لیے اور بھی دہشت ناک ملک بن کر، پوری دنیا کو اپنے پنجوں میں جکڑ لے گا، لیکن شاید اسے اندازہ نہیں تھا کہ افغان بے شک غریب بھی ہیں، وسائل کے اعتبار سے پس ماندگی گا شکار بھی ہیں، آپس کی چپقلشوں کی وجہ سے زخموں سے چور چور بھی ہیں اور جنگی ساز و سامان کی کمی کا شکار بھی ہیں، لیکن عزم و ایثار میں بلندوبالا پہاڑوں سے زیادہ بلند اور سنگلاخ چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہیں۔

یہ وہ افغان تھے جو سوویت یونین جیسی طاقت سے ٹکرا کر اسے نہ صرف اپنے ملک سے باہر نکالنے میں کام یاب ہوچکے تھے، بلکہ اس جنگ میں وہ روس کو اقتصادی طور پر اتنا بد حال کر چکے تھے کہ اسے اپنی یونین میں شامل کئی ریاستوں کو محض اس لیے آزاد کرنا پڑا کہ وہ ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گیا تھا۔

ممکن ہے کہ امریکا بہادر یہ خیال کر بیٹھا ہو کہ وہ افغان کو ترقی و خوش حالی کے حسین اور خوش رنگ خواب دکھائے گا تو ساری افغان قوم اس کی جھولی میں آ گرے گی، لیکن وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ اگر افغانوں کو ترقی و خوش حالی کے خواب ہی بہلا سکتے تھے، تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ روس کے خلاف ہتھیار اٹھا تے۔ وہ سب اگر روس کے افغان میں گھس آنے کے بعد اپنے آپ کو اس کی غلامی میں دے دیتے، تو روس شاید امریکا سے زیادہ افغان کے بچے بچے کو سونے میں تول دیتا لیکن افغان وہ سر زمین ہے، جس کی پوری تاریخ میں غلامی لکھی ہی نہیں ہے اور جس جس طاقت نے بھی ان کو غلام بنانے کے خواب دیکھے، ان کے خواب چکنا چور ہی ہو کر رہ گئے۔ وہ ہمشہ سے ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ ہیں اور جو بھی ان کو غلام بنانے کی خواہش لے کر آتا ہے، وہ سخت نقصان کا شکار ہو کر ذلیل خوار اپنے ملک لوٹ جانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

امریکا نے بھی تمام تر لالچ اور طاقت کے استعمال کے بعد 17 برس اس آس میں گنوا دیے کہ وہ دولت اور طاقت کے زور پر افغان کو اپنے جال میں پھانسنے میں کام یاب ہو جائے گا لیکن اس کو بھی اب وہاں سے ذلت و رسوائی کا منہ دیکھ کر واپسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اہم ترین معاملہ یہ ہے کہ کیا امریکا کے افغانستان سے چلے جانے کی صورت میں خود موجودہ افغان حکومت کا کیا مستقبل ہو گا؟ اس سوال کے جواب میں افغان صدر اشرف غنی کے ترجمان ہارون چاکان صوری کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی افواج کا انخلا، ملکی سلامتی پر کوئی اثرات مرتب نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان دستے 2014ء سے ملکی سلامتی کی ذمے داری سنبھالے ہوئے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب 2014 سے افغانستان کا کنٹرول خود افغان دستے سنبھالے ہوئے ہیں تو پھر آج تک افغان صدر نے امریکا پر یہ دباؤ کیوں نہیں ڈالا کہ وہ افغان سر زمین چھوڑ دیں، نیز یہ کہ ان کے دستوں اور امریکی افواج، دونوں کی طاقت کے باوجود افغانستان میں امن امان کی صورت احوال اتنی دگر گوں کیوں ہے، کہ امریکا کو وہاں سے بھاگتے ہی بن پڑ رہی ہے۔

افغانستان میں اب جو طاقت سر ابھارتی جا رہی ہے اور افغان اور امریکی افواج کی موجودگی کے باوجود بھی وہ افغانستان کے آدھے سے کہیں زیادہ علاقے کا کنٹرول سنبھالتی جا رہی ہے، کیا وہ ایسی حکومت کو برداشت اور گوارہ کرنے کے لیے تیار ہو جائے گی، جو دو دہائیوں سے اسے بھسم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے؟ کیا روس کے انخلا کے بعد وہ حکومت اور اس کے حواری ان جہادیوں کا ہدف نہیں بنے تھے، جو روس کے حامی تھے اور جن کی دعوت پر روس افغانستان میں داخل ہوا تھا؟ اس لیے اس بات کا قوی امکان ہے کہ امریکی انخلا کے بعد موجودہ سیٹ اپ بہت بری طرح لپیٹ میں آئے گا اور خطرہ ہے کہ جس طرح روس کے جانے کے بعد افغانستان کے حالات بڑے مخدوش اور خونی ہو گئے تھے، ایک مرتبہ پھر افغانستان ویسے ہی حالات کا شکار ہو جائے گا، جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ امریکی نمایندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان کی جانب سے افغان حکومت کے نمایندوں کے ساتھ ملنے سے انکار پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ امریکی ایلچی کا کہنا تھا کہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ طالبان بھی درحقیقت امن چاہتے ہیں یا نہیں۔

جن مذاکرات کا بڑا شور اور کام یابی کے دعوے کیے جارہے تھے، ان سب دعوؤں کے کھوکھلا ثابت ہونے کے لیے زلمے خلیل زاد کے یہ چند الفاظ ہی معاملے کی خطرناکی بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اس صورت احوال کو سامنے رکھ کر یہ سوچنا کہ امریکا کے افغان سے چلے جانے کے بعد وہاں امن سکون بہتر ہو جائے گا، ایک فریب خوردگی کے علاوہ اور کچھ نہیں لہٰذا افغانستان کے عوام کو ہر قسم کی صورت احوال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

ایک جانب افغانستان کی صورت احوال امریکی افواج کے انخلا کے بعد کیا ہو گی، افغانستان کے عوام اور حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے تو دوسری جانب پاکستان کو بھی بہت کچھ سوچنا ہو گا۔ امریکی کی جنگ میں شریک ہونے کے بعد پاکستان خود بڑی مشکل میں پھنسا ہوا ہے۔ امریکا کی پالیسی کی اتباع کرنے کی وجہ سے یقیناً اب اس کو موجودہ حکمرانوں سے بھی نمٹنا ہو گا اور وہ قوت جو امریکی انخلا کے بعد اور بھی زیادہ برق رفتاری کے ساتھ افغانستان پر غالب آتی جائے گی، اس کی ریشہ دوانیوں سے بھی اپنے آپ کو محفوظ بنانے کی حکمت عملی تیار کرنی پڑی گی۔ افغانستان پر فی الحال جو حکومت کر رہے ہیں وہ امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود کبھی پاکستان کے حق میں نہیں رہے اور وہ پاکستان کو صف اول کے دشمنوں میں شمار کرتے رہے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اپنے ملک میں ہونے والی تخریب کاری کا الزام وہ پاکستان ہی پر لگاتے رہے ہیں اور جواب میں پاکستان پر حملے بھی کرتے رہے ہیں۔ ایک جانب موجودہ حکومت کا پاکستان کے خلاف ہونا اور دوسری جانب ان قوتوں کا افغانستان میں غالب آتے جانا، جن کے خلاف پاکستان امریکی پالیسیوں کو فالو کرتے ہوئے ان کو نقصان پہنچاتا رہا ہے۔ ان سے خیر کی توقع رکھنا، ایک امر محال ہے۔

ان تمام حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ خواہ امریکا، افغانستان میں رہنے کا فیصلہ کرے یا وہاں سے رخت سفر باندھ کر کوچ کر جائے، پاکستان کے لیے بہت اطمینان کن بات نہیں ہو گی۔ پاکستان کو یہ بات بھی سامنے رکھنا ہو گی کہ افغانستان میں ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ اس نے وہاں کے عام و خاص میں اپنی پوزیشن اتنی مستحکم کر لی ہے، کہ اسے وہاں آنے جانے والی حکومتوں کا بھی کوئی خوف نہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کسی کو بھی ملے، بھارت پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی بجاتا رہے گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بھارت سے دوستانہ مراسم استوار کرنا چاہتا ہے تا کہ ٹکراؤ کا خوف دور ہو اور دونوں ملکوں کے عوام سکون کا سانس لے کر اچھے مستقبل کے متعلق سوچ سکیں، لیکن کیا بھارت نے پاکستان کے کسی خیر سگالی کے جذبے کو اسی طرح لیا ہے اور پاکستان کو یہ احساس دلایا ہے کہ وہ بھی پاکستان سے مخاصمانہ رویے کو دوستی میں بدلنا چاہتا ہے؟ جب وہ پاکستان کے کسی بھی دوستانہ رویے پر دوستی کے لیے قدم بڑھانے کو تیار نہیں، تو پھر وہ افغانستان کی بدلتی صورت احوال کو پاکستان کے لیے امن امان میں کیسے بدلتے دیکھ سکتا ہے؟

پاکستان کو ہر بدلتی ہوئی صورت احوال پر بھرپور نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور امریکی انخلا کی صورت میں ہر قسم کے متوقع حالات سے نمٹنے کے لیے تیار و آمادہ رہنا ہے۔ یہی وقت اور دانش مندی کا تقاضا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).