زبان غیر سے کیا شرح آرزو کرتے


’’اگر لوگ یہ کہنا چاہتے ہیں، کہ ہماری چھوٹی سی قوم کی زبان بڑی مفلس ہے، تو شوق سے کہیں لیکن میں جو کچھ بھی کہنا چاہتا ہوں، اپنی مادری زبان میں کہہ سکتا ہوں اور مجھے اپنے احساسات اور جذبات کی ترجمانی کے لیے کسی دوسری زبان کی ضرورت نہیں‘‘۔
(رسول حمزہ توف)

اپنی زبان سے خود کو مجرم کہنا نہایت تکلیف دہ عمل ہے۔ تاریخ کے آئنے میں گر دیکھنے کی سعی کی جائے، تو بعید نہیں کہ ہم آئنہ دیکھ ہی نہ پائیں۔ اشاروں کنایوں سے شروع ہونے والا سفر جب زبان کی ہیئت تک پہنچا تو انسان کے ایک دوسرے تک احساسات و جذبات کی ترسیل قدرے سہل ہو گئی۔ یہی وہ عمل تھا جس سے ایک معاشرے میں ہم آہنگی اور ہم فکری نے جنم لیا۔ جو معاشرے کے دیگر ڈھانچوں سے ملاپ کے بعد ’’تہذیب‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا اور ہر معاشرے نے اپنے رہن سہن، طور اطوار اور زبان کی بنا پر دوسرے معاشرے سے جدا شکل اختیار کی۔

نو آبادیاتی نظام نے برِ صغیر کے تہذیبی ڈھانچے کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر روا نہ رکھی اور اس ضمن میں سب سے بڑا نقصان اپنی زبانوں سے دوری کی صورت میں عیاں ہوا، لیکن اگر ہم اس دوری کو مکمل سطح پر اس نظام کے ہونے پر منتج کریں، تو یہ بھی حق گوئی کی مخالفت ہو گی۔ آخر بیرونی طاقتوں کے انخلا کے بعد یہاں کے عوام نے خود پر مسلط زبانوں سے بغاوت کیوں نہ کی۔

کیا یہاں کے باسی اپنی علاقائی یا مادری زبانوں سے اظہار کرنے کوخود کے لیے باعثِ شرمندگی سمجھتے تھے یا کہیں اس کی وجہ مسلط شدہ زبان سے منسوب ترقی کی کوئی نام نہاد کہانی تھی۔ زبوں حالی کے اس دور نا پختہ میں زبانِ غیر سے آرزوئے عافیت کیسے ممکن تھی۔

؎ زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

وقت کی تیز رفتاری کے باوجود ہم اپنے معاشرے کو واپس اپنی زبانوں کے قریب نہ لے جا سکے۔ اب کی نسل اظہار کے لیے کسی دوسری زبان کا سہارا لینے میں کوئی عیب پیشِ نظر نہیں رکھتی۔

اکیسویں صدی میں جہاں معاشی اصولوں پر معاشروں کی بنیادیں کھڑیں ہیں، وہاں کسی بھی قوم کی ترقی اس کے افراد کی ترقی پر منحصر ہے۔ افراد کی ترقی، معاشی عمل میں شمولیت پر ممکن ہے، لہذا کسی ایک ایسے عمل کی موجودگی ہی ترقی کی راہیں استوار کر سکتی ہے کہ جو معاشرے میں یک سانیت کا موجب بنے۔ جس سے معاشرے کی اکائیاں کلی سطح پر پیداواری عمل کا حصہ بن سکیں اور یہ یک سانیت اپنی علاقائی یا مادری زبانوں سے نظر کشی کے ساتھ ممکن نہیں۔

زبانِ غیر کے ساتھ مضبوط تہذیب آیندہ نسلوں کے لیے چھوڑنا اک جھوٹا خواب ہے۔ گر ایسا ہوتا ہے تواب کی خاموشی کل ہمیں مجرم قرار دے گی اور بحثیت مجموعی ہم سبھی مجرموں کی فہرست میں اپنے نام تلاش کرتے دکھائی دیں گے۔ حنا آرنڈٹ کے مطابق، ’’جب سارے لوگ مجرم ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی قصور وار نہیں۔ اس سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں ہو سکتا کہ کوئی بھی جرائم کے خلاف نہ بولے اور خاموش رہے۔‘‘
بقولِ میر تقی:
؎ چاہا ہم نے کیا کیا تھا پر اپنا چاہا کچھ نہ ہوا
عزت کھوئی ذلت کھینچی عشق نے خوار و زار کیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).