ڈرامہ انڈسٹری کا اندوہناک ڈرامہ !


“مجھے ایسے ایسے سین لکھنے پڑتے ہیں کہ مجھے خود رونا آتا ہے میں نہیں لکھنا چاہتی مگر کیا کروں مجبوری میں لکھنے پڑتے ہیں ۔ عزت لٹنے کے سین کی جو سنسنی تفصیلات مجھ سے لکھوائی گئیں تو مجھے اتنا رونا آیا کہ میں نے دو رکعت نماز پڑھ کے اللہ سے معافی مانگی” ایک دوست ٹی وی چینل پر کام کرتے ہوئے اپنی بپتا سنا رہی تھی اور میں آج سے پندرہ سترہ سال پہلے اپنے ابو کے ستے ہوئے چہرے میں کھ وگئی ” وہ کہتے ہیں کہ میں آج کے دور کی ڈیمانڈ کے مطابق نہیں لکھتا اس لئے سکرپٹ میں تبدیلیاں لائی جائیں” اور پھر ساری رات کمرے کی بتی جلتی، سگریٹ کا دھواں اڑتا اور بار بار چائے پکتی یا کبھی امی تھرماس میں بنا کے رکھ دیتیں۔ مگر ساری رات تیاگ کے لکھنے والے ادیب کا ڈرامہ ٹی وی پر اپروو ہی نہیں ہو پاتا تھا۔ سٹیج پر لکھنے کی ضرورت نہیں رہی تھی کہ وہاں اب صرف گندی جگتوں اور فحش ڈانسز نے لے لی تھی۔ سٹیج ڈرامہ محض ایک واہیات کلچر بن کے رہ گیا تھا ۔

خیر اتنی محنت کے بعد بھی ڈرامہ اپروو نہیں ہوتا تھا ابو سے واہیات سین نہیں لکھے جاتے تھے ۔ اب سمجھ آتی ہے کہ واہیات سین کرنا اور دیکھنا اتنا مشکل نہ ہو شاید جتنا مشکل لکھنا ہوتا ہے ۔۔جب دوست نے بتایا۔

ہم بیسویں صدی کی وہ جنریشن ہیں جنھیں ہوش سنبھالنے کے بعد شروع دن سے ایک ہی بات کا انتظار تھا کہ ہم اکیسویں صدی میں قدم کب رکھیں گے کیونکہ ہر بات پہ یہی سننے کو ملتا تھا کہ ہم اکیسویں صدی میں قدم رکھنے والے ہیں ۔ مجھے اس صدی اور اس میں قدم رکھنے کا شدت سے انتظار تھا جیسے سچ مچ میں کہیں سپیس میں ہی قدم رکھ دینا ہے اور پھر اکیسویں صدی کا شاندار سورج طلوع ہوا اب تو وہ دن بھی یاد نہیں لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ پوری دنیا نے ہنگامے تو خوب کئے ہوں گے اور بدقسمتی ہی کہہ لیں کہ ہم وہ جنریشن ہیں جنھیں ہر چیز اگلے ہی دن بھول بھال جاتی ہے مطلب ہم نے واقعی سپیس یعنی کسی خلا میں ہی قدم رکھ دیا ہے۔

انسانی نفسیات ہمیشہ اپنے اردگردکے ماحول سے اثر لیتی ہے اور یہ نفسیات کسی بھی ذات کا وہ پہلو ہے جو کہ کبھی بھی ۱۰۰% کھل کے سامنے نہیں آتا۔ مگر ہمارے یہاں پیشے کی بھی اک نفسیات مرتب ہوجاتی ہے کوئی بھی اس سے ہٹ کر کام نہیں کر پاتا۔ پاکستان ٹی وی کی ڈرامہ انڈسٹری ہمیشہ سے عروج کا اک شاندار حوالہ رہی ہے۔ایک زمانے میں صرف پی ٹی وی اکلوتا چینل ہوتا تھا اور اس ٹائم میں اس چینل سے آج تک یاد کئے جانے والے ڈرامے نشر ہوئے۔ پھر چینلز کی بھرمار ہوئی تو پاکستانی ڈرامہ بھی انڈین سوپ کے نقشِ قدم پر چلا مگر پھر کچھ عرصے بعد ڈرامے نے پھر سے اپنی روایت کو دوہرایا۔ میں شاید ان لوگوں میں سے ہوں جنھوں نے بچپن سے آج تک بس پاکستانی ڈرامہ ہی دیکھا ہے ڈرامہ انڈسٹری کے اس عروج کے پیچھے کتنے لکھنے والوں کا زوال چیخ رہا ہے اس پر کبھی کسی کا دھیان نہیں جاتا سوائے اس کے کہ جس پر بیتتی ہے ۔ فنون لطیفہ کی دوسری فیلڈز کی طرح ہماری ڈرامہ انڈسٹری بھی انٹرنل لابی کی بری طرح شکار ہے بڑے نام کا سکہ چلتا ہے اور اکثر بڑے ناموں کے پیچھے لکھنے والے چھوٹے چھوٹے رائیٹرز کی محنت ہوتی ہے۔ اور یہ بڑے ناموں کی مہربانی پر منحصر ہے کہ وہ کس کو اپنی چھتر چھایا میں لینا پسند فرماتے ہیں

نئے لکھنے والوں کو چند ہزار دے کر ڈرامہ خرید کر بڑے رائیٹر کے نام سے چلا دیا جاتا ہے کبھی بڑے رائیٹر کے پروفائل کیلئے اور کبھی ریٹنگ کیلئے۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہوگا کہ اچھا لکھنے والے بیچارے اپنا سکرپٹ تکئے کے نیچے رکھ کر سو رہیں اور مشہور رائیٹرز کے بھتیجے بھانجے یا چاہنے والے جنھیں الف سے ب نہ پتہ ہو ڈرامہ لکھنے کی ،ان سے لکھوایا جائے اور چینل پہ نشر کر دیا جائے

بیچارے رائیٹرز اپنے آئیڈیاز کو ایسے چھپاتے ہیں جیسے ماں اٹھائی گیروں سے بچے چھپاتی ہے کہ کہیں ان کا آئیڈیا چوری نہ ہوجائے۔ ون لائینر لکھوا کے بول دیا جاتا ہے کہ یہ اپروو نہیں ہوا اور اس کے بعد کسی مشہور رائیٹر سے اس آئیڈیا پر ڈرامہ لکھوا کے چلا دیا جاتا ہے آنکھیں تو تب کھلتی ہیں جب بیچارا رائیٹر اپنا ڈرامہ ٹی وی پہ چلتے ہوئے دیکھ کر گھٹنوں میں سر دے کر روتا ہے ۔ آخر اس مسئلے کا کوئی تو حل ہوگا نا ۔ مگر شاید چینلز کی بھرمار کے اس دور میں یہ انتہائی مشکل ہے جہاں دن میں سینکڑوں ڈرامے چلتے ہیں۔

ایک رائیٹر تو نے تو یہ تک بتایا ہے کہ اس سے پورا ڈرامہ ، سکرپٹ لکھوا کر کسی اور کے نام سے چلا دیا گیا۔ اپنا لکھا ہوا کوئی بھی مسودہ اپنے بچوں کی طرح عزیز ہوتا ہے اور ایسے میں جب کسی کا پلا پلایا بچہ اس سے چھین لیا جائے والی کیفیت ہوتی ہے
سوال یہ ہے کہ آخر اس لاقانونیت اور حق تلفی کا کوئی تو سدِباب ہوگا یہ لابی بازی اور کاپی رائٹس کے فقدان سے کتنے رائیٹر سٹریس اور ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ۔ ایک دوست کی تو روزی روٹی چینل کی جاب سے چل رہی تھی مگر پھر جاب ختم ہوئی تو اب کوئی اس کا ڈرامہ اپروو ہی نہیں کرتا ۔ ہم میں سے ہر کوئی اس نان اپروول کی ہر ممکن وجہ جانتا ہے پر کیا کوئی آگے بڑھ کر اس کیلئے آواز اٹھائے گا ؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).