ناصر کاظمی: ہجر کی رات کا ستارہ


 

ناصر کاظمی کے بارے میں کم لکھا گیا ہے۔ یہ کمی کمیت کے اعتبار سے بھلے نہ ہو مگر کیفیت کے حوالے سے ضرور ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ یہ شاعر ان شاعروں میں سے ہرگز نہیں جن کو پڑھنے کے بعد ان کا خلاصہ لکھا جا سکتا ہو۔ شاعری کے ادوار گنوائے جا سکتے ہوں۔ کلاسیکیت یا جدیدیت کا کوئی تمغہ دیا جا سکتا ہو۔ ناصر ان سب سے مختلف ہے۔ ناصر کی قبیل کے اور شاعروں پر بھی اس طرح سے توجہ نہیں دی گئی۔ واہ واہ کے علاوہ راوی چین لکھتا ہے۔

بعض کے حصے میں تو اس طرح کے الفاظ بھی نہیں آئے۔ بھلا احمد مشتاق، منیر نیازی، عزیز حامد مدنی، ابنِ انشا کے بارے میں کس نے لکھا ہے۔ اور ان کے بعد کی نسل جس میں توصیف تبسم، خورشید رضوی، جمیل یوسف، ثروت حسین، قاضی ظفر اقبال، اکبر معصوم، ذیشان ساحل شامل ہیں، ان پر کون لکھے گا۔ خیر شعر کے سحر کے سامنے لکھنے لکھانے کے قضیے ثانوی ہیں۔

ناصر کاظمی کی شاعری پڑھنے کے بعد جو پہلا تاثر ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہ ہے کہ جیسے کسی مہجور کو آئینِ ہجر مل گیا ہو۔ فراق زدہ کو تہذیبِ فراق مل گئی ہو۔ اور ان دو کیفیات کے حصول کا نشاط وہی محسوس کر سکتے ہیں جن پر یہ جذبے مہربان ہوتے ہیں۔ محبت مہربانی ہی تو ہوتی ہے جو بے آباد دلوں میں خوشی کے پھول کھلاتی ہے۔ ناصر کی شاعری کے ساتھ کچھ ٹائپ لگا کر محبت کی نعمت سے محروم لوگوں نے کچھ اشقلے ضرور چھوڑے۔ اداسی، ہجر، قنوطیت، میریت، کلاسیکیت جیسے عنوان قائم کرکے قاری کے دل میں محدودیت کا سامان پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ناصر کے حقیقی قاری اس طرح کے بہکاوں میں نہ آئے۔ غم سے دوری پیدا کرنے والوں کو یہ احساس ہی نہیں کہ غم دل کے زندہ ہونے کی علامت ہوتا ہے۔ جس طرح آنسو آنکھ کی آبادی کی نشانی ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ درج بالا خصائص ناصر کی شاعری میں موجود نہیں۔ اداسی، ہجر، میر کا رنگ موجود ہے مگر ناصر نے اس غم اور ہجر کی جس طرح تہذیب کی ہے وہ ہر شاعر کا مقدر نہیں۔ ناصر کاظمی بڑے جاذب شاعر ہیں۔ ان کے دوست بتاتے ہیں کہ ناصر کو اساتذہ کے ڈھیروں اشعار یاد تھے۔ شعر کہنے اور شعر سننے والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے طور پر بڑی لیاقت ہے۔ اس خوبی کا استعمال ناصر نے اپنے باطن کے سچ کے ساتھ ملا کر کیا ہے۔ دوسری صورت میں یہ شاعری دوسروں کے خیال کی جگالی بن سکتی تھی۔

ناصر بہت صاف مصرع لکھتے ہیں۔ چوکس، پورا۔ کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ مختصر بحروں کے تخلیقی استعمال کے اعتبار سے ناصر کی شاعری شعر گوئی کی بہترین مثال تو ہے ہی مگر جہاں طویل بحریں استعمال کی ہیں وہاں بھی جھول یا تھکاوٹ کا اظہار نہیں ہوتا۔ ناصر متعین اہداف اور مستعار جذبات لے کر شعر کے دربار میں نہیں جاتے بلکہ اپنے خیال کی دستک پر کان دھرتے ہیں اور صبر کے ساتھ اپنے جذبۂ دل کی تصویر بناتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیکروں کی ایک طلسماتی دنیا قاری کا استقبال کرتی ہے۔

ناصر کا شعر آسان لگتا ہے۔ آسان لگنے اور آسان ہونے میں بڑا فرق ہے۔ جب جب آپ شعر کی پرتوں کو اتاریں گے تو آپ کی حیرت میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ آسانی اور مشکل کی یہ بھول بھلیاں آسانی سے ہاتھ نہیں آتیں۔ سیدھے مصرعے ٹیڑھے دلوں کا مقدر نہیں بنتے۔ شاعری کو اگر کوئی نام دیا جا سکے تو یہ اندر کا سیدھا پن ہی تو ہے۔ ایک کیفیت جو اچانک کسی کو اپنے جلو میں لے لے۔ ایک طرح کی خوشی۔ ایک ملاقات۔ ذہن کی سمتیں بدلنے والی قوت۔ یادوں کی دنیا۔

ناصر نے زندگی کو محبت کے روزنامچے کے طور پر لیا۔ محبت کرنے والے کیسے زندگی گزارتے ہیں یہ جاننا ہو تو ناصر کی شاعری کو اپنا دوست بنانا پڑے گا۔ بہت کم شاعر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے قاری سے ہم کلام ہونا جانتے ہیں۔ یہ شاعری تو آپ سے باتیں کرتی ہے۔ دل کا حال بتاتی ہے۔ اکیلے پن کو مجسم کرتی ہے۔ اس شاعری میں غم کی اذیت ناکی میں خوشی کی ایک رو موجود ہے۔ ایک لہر جو قاری کو بہائے لیے جاتی ہے۔

ناصر کے اشعار مدھم ندی کے طرح چلتے ہیں۔ لیکن بہت شور کرتے ہیں۔ یہ شور دل و دنیا کو ایک کر دیتا ہے اور جدائی کی مدھم آنچ پر پک کر جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ناصر شعر میں شعبدے بازی کے قائل نہیں۔ پھبتی، ٹھٹھول سے اپنے شعر کو کثیف نہیں بناتے بلکہ ایک ترنگ، ایک لگن، ایک دُھن میں اپنے دل کا حال سناتے چلاتے جاتے ہیں۔ اُن کو خدا نے محسوس کرنے والا دل دیا ہے اور اُنھوں نے اپنے دل کو دنیا کے پانی سے میلا نہیں ہونے دیا۔ دردمندی کو اپنی ذات کا حصہ بنایا ہے۔ اس درد نے اس کے شعر میں وہ توانائی پیدا کی جو کم کم کسی کے حصے میں آتی ہے۔

تقسیمِ ہندوستاں اور آشوبِ بنگال کے بارے میں کافی کچھ پڑھنے کو ملتا ہے مگر جیسا غیر جذباتی اظہار ناصر کے ہاں آیا ہے وہ باقی جگہوں پر موجود نہیں۔ سُر کی چھایا ان کی منظوم کتھا ہے جس میں لٹے پٹے لوگ اپنے کل سے بے خبر ریل گاڑی میں بیٹھ کر چلے جا رہے ہیں۔ اس سفر میں بڑا کرب ہے اور یہ کرب اسی قبیل کا شاعر محسوس کر سکتا ہے۔ ناصر اذن کا شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلی بارش کا آغاز ہی ”میں نے جب لکھنا سیکھا تھا“ سے ہوتا ہے۔ یہی اذن ان کی ساری شاعری میں موجود ہے۔ یہ شاعری آمد کی بہترین مثال ہے۔ ناصر شعر گوئی کو مشقت کے ساتھ کرنے کے قائل نہیں تھے۔ تخلیق کاروں والی تن آسانی اور تخلیقی شانِ محبوبی ان کی ذات کا حصہ تھی۔ وہ سراپا شاعر تھے۔ اپنے ہر عمل میں شاعر۔ سفر، حضر میں شعر ہی ان کا چلن تھا۔

ان کی حساسیت کا یہ عالم تھا کہ وہ سرسوں کے پھول کو بھی اپنا ہم عصر قرار دیتے اور لورکا کو اپنا پسندیدہ شاعر۔ میر، نظیر، فراق، انیس ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ ناصر کا کلام قرأت کی تہذیب مانگتا ہے۔ اسے رواروی میں نہیں پڑھا جا سکتا۔ جس طرح دل کی لگی کے بغیر رات کو جاگا نہیں جا سکتا۔ اسی طرح بے جذبہ شوق اس کلام بلکہ کسی بھی کلام کو نہیں پڑھا جا سکتا۔ یہ حیرت کا ساز ہے۔ یہ چپ کی زبان ہے۔ تنہائی کا گیت ہے۔ یادوں کا بہتا دریا ہے۔ ایک آہستہ روی اس شاعری کا وظیفہ ہے۔ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے والوں کے لیے اس شاعری میں بہت کچھ ہے۔

حیرت اس وقت ہوتی ہے جب آج کی مادی ترقی کے بل بوتے پر بننے والے سماج کی ظاہری تبدیلیوں کا نقشہ کسی شاعر کی شاعری سے تلاش کیا جاتا ہے۔ شاعر کے احاطۂ خیال کو اضافی سمجھے بغیر اس کی تعبیریں کی جاتی ہیں۔ اس سماج کے ٹھہراؤ اور ماحول کی آہستہ روی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ناصر کے کلام میں آج کے زمانے میں پنپنے والی مادی ترقی کو اس کے کلام سے تلاش کیا جائے۔ اب میٹرو یا اورنج ٹرین کا بیان تو اس کلام میں آنے سے رہا۔ اس نوع کا علم نجوم اس شاعر کے پاس نہیں ہے۔ برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاطِ خواب، سُر کی چھایا ایسی درد کی داستانیں ہیں جن کی تصنیف میں شاعر خرچ ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اور اس صرفے کو انتظار حسین، شمیم حنفی، محمد سلیم الرحمن اور سہیل احمد خان نے اپنے مضامین میں عمدگی سے دکھایا ہے۔

کلیاتِ ناصر کاظمی اب کے ریڈنگز کے اشاعتی ادارے القا نے چھاپا ہے۔ اور بے شبہ اب تک چھپنے والے ایڈیشنوں میں سب سے عمدہ ایڈیشن ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).