کیا ہم کبھی مردوں کے کھجانے اور نہ کھجانے سے آگے سوچ پائیں گے؟


ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت دو بڑے گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ دونوں گروہ ایک بڑی جنگ کے لیے کمر بستہ ہیں اور آنے والے وقتوں میں ایک اندازے کے مطابق ہمارا ہر نوجوان اس جنگ عظیم سوم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا، جو پاکستان میں اس وقت چھڑ چکی ہے۔ اگر پاکستان کے اس بڑے میدان جنگ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیں دونوں گروہ مستعد نظر آتے ہیں۔ وہاں سامنے ایک بڑی باڑ کے اندر صفیں بندھی ہیں اور دونوں طرف نعرے زور و شور پر ہیں۔ یہاں اس باڑ کے باہر جہاں میں یہاں سے اس جنگ عظیم سوم کا نظارہ بڑا دلکش ہے۔ تماشائی جو خصوصاَ کسی نہ کسی گروہ سے جڑے ہیں بہت پرجوش ہیں لیکن میں خوش بختی سے کسی بھی گروہ کا حامی نہیں۔ میں بس عام سا تماشائی ہوں جسے تماشہ سے لطف اندوز ہونا ہے۔

یہ پرانی بات ہرگز نہیں۔ یہ اسی دور کا ہی تذکرہ ہے جب دنیا مختلف شعبوں میں کامیابیاں و کامرانیاں حاصل کرنے کی تگ و دو میں ہے۔ اور یہ تگ و دو بیکار نہیں۔ عصر حاضر میں انسان اس کہکشاں سے آگے نکل جانے کی فکر میں ہے۔ جہاں ابن آدم کی مریخ پر تحقیق جاری ہے، وہاں روبوٹ بھی بھیجے جا رہے ہیں، آب و ہوا کا مطالعہ کیا جا رہا ہے اور زندگی کے آثار کی چھان بین جاری ہے۔ نائبِ خدا دور پار کے ایک اور سیارے پر کسی اور ایلین کی موجودگی کا گمان بھی کر رہا ہے۔ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ وہاں بھی کوئی بڑی قابل نسل رہتی ہے جو تعمیر و ترقی میں گامزن ہے۔

یہ جنگ جو یہاں پاکستان میں چھڑ چکی ہے، اسی دور کی ہے جب ایک قابل ترین سائنسدان کسی ملٹی ڈائی مینشنل ذات یعنی کہ خدا کے وجود پر بحث کر رہا ہے تو دوسرا قابل ترین سائنسدان خدا کے وجود کا انکاری ہے اور اپنے دلائل بیان کر رہا ہے۔ جہاں ادھر ہمارے پاکستان میں یہ جنگ عظیم سوم کو ہوا دی جا رہی ہے، وہیں اُدھر مصنوعی رحم بنا کر بچے پیدا کرنے کے کامیاب تجربات ہو رہے ہیں۔

زرا دیکھئیے، وہاں سامنے، ایک گروہ میں مرد ہی مرد ہیں دور دور تک کوئی عورت ذات نظر نہیں آ رہی۔ دوسری سمت عورتوں کے گروہ میں مرد حضرات بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ اور دونوں اطراف کے مرد و زن نعرے لگا کر اپنے ساتھیوں کو پرجوش کر رہے ہیں۔ دونوں اطراف کا نعرہ لگ بھگ ایک ہی ہے۔ ”میرا جسم میری مرضی“ لیکن یہ لوگ مردوں کے مخصوص اعضاء کے کھجانے اور نہ کھجانے کے فیصلہ کن معرکہ کے لیے کمر بستہ ہیں۔ خدا جانے یہ جنگ عظیم کس قدر طویل ہو اور جانے کون سا گروہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔ لیکن میں یہاں محض تماشائی ہوں اور مجھے ان میں کسی کی ہار و جیت سے سروکار نہیں۔

میری کوئی رائے بھی نہیں، کیوںکہ میں ایسے معاشرے میں کا جزو ہوں، جہاں ادیب اور کالم نگار سستی شہرت کے حصول کےلیے رواں دواں ہیں۔ میں دیکھتا ہوں ادیب و غیر ادیب حضرات بھی سیاسی پروگرامز میں بڑھ چڑھ کر حصہ صرف اس لیے لے رہے ہیں کہ سیاست یہاں پاکستان میں پورن موویز کے بعد سب سے زیادہ مقبول شعبہ ہے، تو ایسے میں میں لب کشائی کی جسارت کرنے کا متحمل خود کو نہیں دیکھتا۔ مجھے لگتا ہے، وہ لوگ جنہیں معاشرتی تعمیر میں حصہ لینا تھا اور جنہیں اللہ رب العزت نے تخلیقی صلاحیت دے کر عوامی اصلاح و رہنمائی کی ایک بڑی ذمہ داری سے نوازا تھا، عنقریب مردانہ کمزوری اور گوری رنگت جیسے ہاٹ ایشوز پر قلم اٹھائیں گے کیوںکہ یہ پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے اور ہر نوجوان لڑکے لڑکی کی سوچ یہاں آ کر اٹک جاتی ہے۔

ہاں البتہ جب تلک مردوں کے مخصوص اعضاء کھجانے یا نہ کھجانے اور عورتوں کے دیکھنے یا نہ دیکھنے کا یہ معرکہ کسی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گا تو میری نظریں ضرورکسی منٹو کو تلاشیں گی، جو ہمارے نوجوانوں، ادیبوں اور کالم نگاروں کے اندازِفکر کو ننگا کر کے دکھائے اور پھر کوئی درزی انہیں موضوع لباس پہنانے کی جسارت کرے۔ لیکن اس سے پہلے تو میں محض تماشائی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).