کینسر پاکستان میں پھیلتا جا رہا ہے


اندرون لاہور سے تعلق رکھنے والا 38 سالہ سہیل لطیف منہ کے کینسر میں مبتلا ہے۔ اس کی آدھی زبان دائیں جانب سے مکمل سیاہ ہے ‘جو ایک ناسور نما پھوڑے کی مانند منہ کھولتے ہی واضح دکھائی دیتی ہے۔ ہاتھ میں میڈیکل ہسٹری اور بیسیوں معائنہ جاتی رپورٹیں تھامے سہیل لطیف اس قدر تکلیف میں تھا کہ ڈاکٹر کو جواب دینے کے لئے اس کی ہمشیرہ کو آگے بڑھنا پڑا۔
چار بیٹیوں کا باپ چھے بہنوں کا اکلوتا بھائی سہیل اپنی بڑی ہمشیرہ اور چچا کیساتھ ڈاکٹر شہریار کے کلینک میں اپنی شدید تکلیف کا اظہار اشاروں کنائیوں میں کرنے کی اپنی سی کوشش کر رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ سہیل گزشتہ بیس برس سے روزانہ دس سے بارہ تمباکو والے پان چباتا آیا ہے۔
زبان میں چھالے نکلے‘ منہ سوج گیا‘ چھالے پھوڑے بن گئے‘ دیسی ٹوٹکوں سے مرض کا علاج کرتے کرتے دو سال بیت گئے۔ دو سال بعد جب زبان سیاہ ہو گئی اور کھانا پینا؛ حتیٰ کہ بولنا محال ہوا تو خاندان والے بھی حرکت میں آئے اور یوں شروع ہوئے نہ ختم ہونے والے ہسپتالوں کے چکر۔
کینسر کی تشخیص کے لئے مطلوبہ ٹیسٹ کروائے تو معلوم ہوا کہ سہیل لطیف کو منہ کا کینسر ہے۔ شہر لاہور کا ہر بڑا ہسپتال ہر بڑا ڈاکٹر‘ یہ لوگ در در کی ٹھوکریں کھاتے رہے۔ قریباً سبھی نے کہا کہ نوجوان کا کینسر تیسری سٹیج میں ہے اور لا علاج ہے‘ دعا کریں! سہیل کی ہمشیرہ ‘مگر کہاں ہار ماننے والی تھی۔ ادھر ادھر بھٹکتے‘ یہ کینسر کیئر ہسپتال کے روح رواں ڈاکٹر شہریار کے پاس پہنچے‘ جہاں اتفاق سے ہم بھی ماں جی کے چیک اپ کے لئے موجود تھے۔
ڈاکٹر شہریار نے سہیل کی فائلیں دیکھیں‘ خاندان کو تسلی دی۔ مالی حالت بارے دریافت کیا تو سہیل کی ہمشیرہ پھٹ پڑی۔ نوبت فاقوں تک آن پہنچی تھی کہ سہیل کا چھوٹا سا موبائل فون کا کاروبار بھی صحت کے مسائل کی وجہ سے ٹھپ پڑا تھا۔
ڈاکٹر شہریار بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں۔ ایک خاص جنون سے ہانکے ‘یہ صاحب شوکت خانم کی طرز پر اپنی مدد آپ کے تحت رائیونڈ روڈ پر کینسر کی تشخیص اور علاج معالجے کیلئے ایک بڑا ہسپتال بنا رہے ہیں۔ ملک بھر کے خدا ترس لوگ اس کار خیر میں جوق درجوق حصہ ڈال رہے ہیں اور یوں یہ بڑا منصوبہ ہر گزرتے دن کیساتھ حقیقت کا روپ دھار رہا ہے۔
سہیل کے علاج کیلئے فوری سرجری اور پھر ایک لمبا چوڑا ٹریٹمنٹ پلان اشد ضروری تھا۔ ڈاکٹر نے انہیں ایک سرجن کے پاس ریفر کیا اور یوں یہ فیملی دعا دیتی ہوئی چل دی۔ پوچھا ڈاکٹر صاحب یہ کیا معاملہ تھا؟ وہ بولے؛ تیسری اور چوتھی سٹیج کا کینسر جب لا علاج ہو جائے تو عمومی طور پر ہسپتال ایسے کیسز لینے سے گریز کرتے ہیں۔
ایسے مریضوں کا عرصہ حیات ”پیلی ایٹو کئیر‘‘ کی مدد سے نا صرف بڑھایا جا سکتا ہے‘ بلکہ ان کی تکلیف بھی خاصی حد تک کم کی جا سکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ سہولت تو پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی بڑے ہسپتال میں ایسا کوئی شعبہ سرے سے ہی موجود نہیں۔
کہتے ہیں‘ جس تن لاگے سو تن جانے۔ مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وطن ِعزیز میں کینسر کی تشخیص‘ علاج اور”پیلی ایٹو کیئر‘‘ کے لئے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کینسر امراض قلب کے بعد اموات کی دوسری بڑی وجہ بن رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ2028ء تک پاکستان میں اموات کی سب سے بڑی وجہ کینسر ہوگی۔
ساڑھے تین لاکھ سے زائد کینسر کے نئے مریض ہر سال رجسٹرڈ ہو رہے ہیں اور اس جان لیوا مرض کی وجہ سے سالانہ اموات دو لاکھ سے زائد ریکارڈ کی جا رہی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساٹھ سے 80 فیصد تک مریض بروقت تشخیص اور مناسب علاج سے محروم رہتے ہیں۔
ملک بھر میں کینسر کے بارے میں دو ہزار پندرہ تک کا دستیاب ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے تحت چلنے والے ہسپتالوں میں ساڑھے پانچ سو بیڈ اور پینتیس ماہر ڈاکٹر‘ انتیس ہزار مریضوں کا سالانہ علاج ممکن بنا پاتے ہیں۔ مختلف ٹیچنگ اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں تین سو پچاس بیڈ اور اٹھارہ ماہرین اٹھارہ ہزار مریضوں کا علاج کرتے ہیں۔
ایسے میں شوکت خانم بہتر سہولیات کیساتھ دو سو بیڈ ‘ بیس اعلیٰ درجے کے ماہرین کی مدد سے دس ہزا ر سے زائد مریضوں کا علاج کرتا ہے۔ سی ایم ایچ سو بیڈاور گیارہ ماہرین کیساتھ چار ہزار مریضوں کا علاج ممکن بناتا ہے۔ یوں ملک بھر میں مجموعی طور پر کینسر کے مریضوں کیلئے بارہ سو بیڈ اور چوراسی سپیشلسٹ ماہرین موجود ہیں‘ جو ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے ساٹھ ہزار سے زائد مریضوں کا علاج ہی کر پاتے ہیں۔
سالانہ ساڑھے تین لاکھ نئے مریضوں کو دیکھتے ہوئے ماہرین کے مطابق ‘پاکستان میں سات ہزار بیڈ‘ قریباً سات سو ماہرین اور سات ہزار نرسیں درکار ہیں۔
صرف پنجاب کی صورتحال پر نظر دوڑائیں ‘تو یہاں ہر سال ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زائد کینسر کے نئے مریض سالانہ سامنے آ رہے ہیں‘ ان میں سے تیس ہزار سے زائد ہی مناسب علاج حاصل کر پاتے ہیں۔ میو ہسپتال لاہور‘جناح ہسپتال لاہور‘ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد‘ نشتر ہسپتال ملتان اور سر گنگا رام ہسپتال لاہور ہی ایسے سرکاری ہسپتال ہیں‘ جہاں مجموعی طور پر تیرہ ہزار سے زائد کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔
ان تمام سرکاری ہسپتالوں میں کینسر کے مریضوں کیلئے پانچ ماہرین اور دو سو دس بیڈ دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب میں سی ایم ایچ میں چھ ماہرین ‘ ساٹھ بیڈ‘ انمول میں ایک سو پچاسی بیڈ ‘بارہ ماہرین اور شوکت خانم کے اسی بیڈ اور گیارہ ماہرین قریباً اٹھارہ ہزار مریضوں کا ہی علاج ممکن بنا پاتے ہیں۔
یوں پنجاب میں ایک لاکھ پچاسی ہزار سے زائد سالانہ نئے مریضوں کیلئے بتیس سے زائد ماہرین اور پانچ سو تہتر بیڈ دستیاب ہیں۔ یہ ناکافی بندوبست تیس ہزار سے زائد نئے مریضوں کو ہی علاج فراہم کر پاتا ہے۔ صوبے میں مجموعی طور پر تین سو ساٹھ ماہرین‘ پانچ ہزار بیڈ اور چھتیس سو نرسیں درکار ہیں۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ناکافی سہولیات کے باعث باقی مریضوں کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ دل پر ہاتھ رکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ باقی مریض علاج سے محروم ہی رہتے ہوئے جلد جان کی بازی ہا رجاتے ہیں۔
صرف لاہور میں ریڈی ایشن مشینوں کی تعداد سات ہے‘ جن میں سے پانچ فعال ہیں۔ بروقت ریڈی ایشن کی سہولت نہ ملنے کی صورت میں اکثر کینسر کے مریضوں میں کینسر کا جرثومہ دوبارہ نمو پاسکتا ہے‘ جس تن لاگے سو تن جانے۔ جناب عمران خان نے یقینا اسی جنون سے شوکت خانم کے لئے دن رات ایک کئے‘ لیکن اب یہ مثالی ہسپتال مریضوں کے بڑھتے ہوئے رش کیلئے ناکافی ہے۔
سرکاری ہسپتالوں کی حالت ِزار کا کیا رونا کہ یہ شاید اب بے سود ہے۔ ملک بھر میں کم از کم گیارہ نئے کینسر ہسپتال ساڑھے تین لاکھ سالانہ مریضوں کی جان بچا سکتے ہیں۔ کینسر اور پاکستان کی اگلی کڑی میں کوشش ہوگی کہ کینسر کی مختلف اقسام ‘ تشخیص اور علاج پر بھی روشنی ڈالی جا سکے کہ ہمارے ہاں تو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے والی خواتین کی نصف تعداد ایک سال کے اندر اندر جان کی باز ی ہار جاتی ہیں۔
ڈاکٹر شہریار رائیونڈ روڈ پر ستائیس ایکٹر کی زمین پر چار سو بیڈ پر مشتمل کینسر کئیر ہسپتال کی بنیاد رکھ کر اپنے حصے کا کام تو نبھا رہے ہیں‘ لیکن سرکار اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟ سوچیے گا! اندرون لاہور کے سہیل لطیف جیسے اَن گنت مریض کسی مسیحا کے منتظر ہیں!
بشکریہ روزنامہ دنیا
اجمل جامی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اجمل جامی

اجمل جامی پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں، آج کل دنیا ٹی وی کے لئے لائیو ٹالک شو کرتے ہیں، خود کو پارٹ ٹائم لکھاری اور لیکچرار کے علاوہ فل ٹائم ملنگ مانتے ہیں، دوسری بار ملا جائے تو زیادہ پسند آسکتے ہیں۔ دل میں اترنے کے لئے ٹویٹر کا پتہ @ajmaljami ہے۔

ajmal-jami has 60 posts and counting.See all posts by ajmal-jami