قائد ڈے پر 50 % سیل اور قائد اعظم کے احسانات کا بدلہ


میری تو آنکھیں پھٹی رہ گئیں بھائی۔ تمام برانڈز پر قائد کے دن کے حوالے سے اتنا ڈسکاؤنٹ دیکھ کر سب سے پہلے شکرانے کے نوافل ادا کیے کہ اگر قائد اعظم پیدا نہ ہوتے تو ہم پچیس دسمبر دن کی اس لوٹ سیل سے فائدہ اٹھانے اور انھیں خراج تحسین پیش کرنے کے قابل بھلا کس طرح ہوسکتے تھے؟

مجھے تو لگتا ہماری قوم نے آہستہ آہستہ قائد اعظم کے احسانات کا بوجھ اتارنا شروع کردیا ہے اور لگتا ہے کہ 50 % فی صد تک ہم کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ حالات آپ سب کے سامنے ہیں۔ آج قائداعظم کے نام کے ڈسکاؤنٹ مل رہے ہیں پاکستانیوں کو پورے ملک میں۔ اور کیا چاہیے؟ کیا اسی لیے انھوں نے ہمیں یہ ملک نہیں دیا تھا کہ ہم اپنی مرضی سے اپنی الگ ریاست میں سانس لے سکیں؟ اپنی مرضی سے کپڑے بنا سکیں اور اپنی ہی مرضی سے خرید بھی سکیں؟

کیا اس لئے یہ ملک نہیں بنا تھا کہ ہمارے صنعت کاروں کو اپنی مرضی سے صنعتیں لگانے اور انھیں اپنی مرضی کی قیمتوں پر بیچنے کا موقع مل سکے؟ پرائے ملک میں رہتے ہوئے غیر مذہب کے لوگوں کی غلامی سے کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ اپنا الگ آزاد ملک بنایا جاتا اور اس ملک میں ہم مذہب لوگوں کو باری باری ”ڈھائی دن کی بادشاہت“ دی جاتی؟ کم از کم یہ ہندوؤں کے ظلم سے تو لاکھ درجہ بہتر ہی رہا ہے اور شاید قائد اعظم بھی جانتے تھے کہ ”اپنا مار کر بھی چھاؤں میں ڈالتا ہے“ اسی لئے انھوں نے ہمیں انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی اور ہندوؤں سے علیحدگی حاصل کروانے کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ لیکن ہم نے بھی ان کے بھروسے کو آج تک نہیں توڑا۔ ہم نے اپنوں سے اپنوں والا ہی سلوک روا رکھا جس جس کو مارا، اسے چھاؤں میں ڈالا۔ مرتے کو کم از کم پانی ضرور پوچھا۔

ایسے تو نہیں ہم نے اپنے بابائے قوم کو اپنے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے؟ ہمیں ان کے احسانات کا پورا پورا احساس ہے۔ آج 25 دسمبر کے دن کی ہر خرید و فروخت سے مستفید ہونے والی ہماری قوم قائداعظم کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ فیس بک کھول کر دیکھیں ہر ایک کی ٹائم لائن قائد کے اقوال سے مزین جگمگاتی نظر آئے گی۔ ہمارے بچے بچے کو فاؤنڈر آف پاکستان کا نام معلوم ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو خصوصاً کراچی میں مزار قائد کا چپہ چپہ قدموں کے حساب سے ازبر ہے۔

آج ہمارے بڑوں کو ”دی یوں ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان“ ترنگ میں گاتا دیکھا جا سکتا ہے۔ آج ہر ٹی وی چینل پر کم از کم دن میں ایک بار ضرور قائد پر ڈاکومنٹری دیکھی جا سکتی ہے۔ آج ہر شاپنگ مال میں ونٹر فیسٹیول اور کرسمس کے ساتھ ساتھ قائداعظم کی تصویر کا کوئی نہ کوئی اسٹال یا ایکٹیویٹی ضرور نظر آئے گی۔ سب سے بڑی بات پچیس دسمبر کے دن کی چھٹی بھی کسی متنازعہ کے بغیر قائد کے یوم پیدائش کے حوالے سے ہی دی جاتی ہے۔ تو بتائیے نہیں کر رہے ہم قائد کے احسانوں کا صحیح معنوں میں حق ادا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).