آصف علی زرداری 27 دسمبر کے خطاب میں آخر کون سے راز افشا کرنے والے ہیں؟


پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپر، اومنی گروپ اور حسین لوائی اور بحریہ ٹاؤن کے بے تاج بادشاہ ملک ریاض کے متعلق نت نئے انکشافات کا سلسلہ جاری ہے۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جعلی اکاؤنٹس سے متعلق ایف آئی اے کی جے آئی ٹی نے تو اپنے پاور پوائنٹ پر منی لانڈرنگ اور پیسوں کا گورکھ دھندا ایسے افشا کیا ہے جیسے ہندوستانی فلم 16 دسمبر میں پاکستان کو ہندوستان میں ہونے والے ہر برے کام کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

آصف علی زرداری اور ان کے رفقا سے متعلق تمام انکشافات کو دیکھ کر ایسا لگ رہا کہ یا تو جی آئی ٹی نے ہندوستانی فلم 16 دسمبر کو دیکھ کر سارا کام کیا ہے یا پھر آصف علی زرداری نے پوری فلم کا اسکپرٹ خود لکھا ہے۔ ملک ریاض کے بارے میں تو سب کو پتہ ہے کہ ابھی تک اس ملک میں کوئی بھی ایسا مائی کا لال پیدا نہیں ہوا ہے جو ان کا کام روک سکے ان کو ویسے بھی ملک کا گنک میکر سمجھا جاتا ہے۔ ماضی کے بڑے بڑے طرم خان، افسران ان کے یہاں تنخواہ پر کام کام کرتے نظر آتے ہیں۔

مگر آصف علی زرداری کے بارے کسی کو نہیں پتہ کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بس صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ بہت جلد جیل جائیں گے۔ نئے سال 2019 میں شریف خاندان کے بڑوں کی تکالیف کے دن ختم ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف بس کچھ ہی دنوں میں جیل سے آزاد ہو جائیں گے اور پھر اگلی باری زرداری کے نعرے کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ مگر اس 27 دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے صدا بلند ہو رہی ہے کہ ان کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اپنی پارٹی پالیسی بیان کرتے ہوئے تمام راز افشا کر دیں گے۔

اس ملک کے سیاستدانوں کے دلوں میں کئی راز دفن ہیں مگر ابھی تک وہ انہیں چاہ کے بھی باہر نہیں نکال سکے۔ آصف علی زرداری محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر کیا خطاب کرتے ہیں کیا وہ اینٹ سے اینٹ بجائیں گے یا پھر سے بنگلا دیش ماڈل کے قصے سناتے نظر آئیں گے یا پھر حکومت کنٹرول کرنے کے نت نئے طریقوں کو واضح کریں گے یا پھر اس دفعہ بھی قومی حکومت اور مفاہمت کی باتیں کر کے چپکے سے چلے جائیں گے۔ آصف علی زرداری کو بہت سی باتوں کا پتہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کیسے بنی اور حکومت کو معاشی اور سیاسی مدد کون فراہم کر رہا ہے اور حکومت کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے مگر ابھی تک وہ اشاروں کنایوں سے باتیں کرتے نظر آئیں ہیں۔

مگر اس دفعہ اگر وہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی ثابت کرنا چاہتے ہیں تو پھر وہ ضرور بولیں گے اور جیل جائیں گے تاکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سمت کا تعین کر سکیں کہ اس کی منزل کیا ہے۔ مفاہمتوں سے حکومتیں تو مل جاتیں ہیں مگر پھر ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل پر بھی مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈران کو کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ایف آئی اے کی جی آئی ٹی نے اربوں روپوں کے الزامات آصف علی زرداری پر لگائے ہیں مگر لوگ تو ابھی تک عزیر بلوچ کے بیان حلفی اور ڈاکٹر عاصم پر لگائے گئے دہشتگردی کے الزامات اور 462 ارب کی کرپشن بھی نہیں بھولے کہ وہ الزامات اور گواہ کہاں گئے؟ اور ان کا آصف علی زرداری سے حساب کیوں نہیں لیا گیا؟ اگر اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن ملک میں ہوتی آ رہی ہے تو اس ملک کے ادارے کیا کرتے رہے ہیں؟ کیا صرف احتساب اپنے اپنے مفادات کے لیے کیا جائے گا اگر ایسا ہے تو ملکی مفادات کی بات کرنے والے صرف قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔ اور ملک میں اگر احتساب اور انصاف کچھ لو اور کچھ دو کا نام ہے تو آخر کار یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟

کبھی آصف علی زرداری کے گھوڑے سونے کے مربعے کھاتے ہیں تو کبھی ان کی مرغیاں ہیرے کے ہار پہنتی ہیں تو کبھی منی لانڈرنگ میں ان کے ساتھ آیان علی کا نام جوڑا جاتا ہے اگر آیان علی کا منی لانڈرنگ کے گورکھ دھندے میں اہم کردار تھا تو ان کو ملکی عدالتوں اور اداروں نے باہر کیوں جانے دیا؟ اس وقت کے محب وطن وزیر داخلہ چودری نثار علی خان کی جان نثاری اور خصوصی لگن کے باوجود بھی آیان علی کو منی لانڈرنگ کیس سے کیسے ضمانت ملی اس پر بھی سوالیہ نشان اٹھتا ہے؟

کبھی آصف علی زرداری پر میر مرتضیٰ بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزامات لگائے جاتے ہیں تو کبھی کرپشن، چوری اور ڈاکے کے۔ ابھی بھی ملک میں منی لانڈرنگ کے ڈان کے طرح میڈیا پر ان کے جعلی اکاؤنٹس کی داستان زبان عام ہے۔ اگر وہ اصل میں اتنے بڑے قصور وار ہیں تو پھر کیسے ان کو اس ملک کا صدر بننے دیا گیا اور کیا ایسا خوف ہے کہ ان پر ہاتھ نہیں ڈالا جا سکا؟ اگر احتساب سے پہلے ہی کسی کی کردار کشی کرنا ہی ہمارا طرہ امتیاز ہے تو پھر وہ کام تو ہو چکا۔

اس لیے آصف علی زرداری اپنے جیل جانے سے پہلے آخری خطاب میں کبھی بھی وہ تمام راز افشا نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ اگر اس ملک میں سیاست کرنی ہے تو پھر طے شدہ قاعدوں کی پاسداری کرنا پڑے گی۔ اس لیے وہ ابھی جیل تو جا سکتے ہیں مگر خود ساختہ جلاوطنی اور بلاول بھٹو زرداری کا سیاسی مستقبل داؤ پر کبھی نہیں لگائیں گے۔ ان کے خطاب میں صرف تھوڑا بہت شور شرابا، تھوڑی تلخی، جیئے بھٹو اور پاکستان کھپے کے نعرے ہی سننے کو ملیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).