اسے بھی ڈاکٹر بننا پڑے گا


یہ اِسی دسمبر کی ایک سرد رات تھی۔ میں پشاور کی یخ بستہ ہواؤں میں باہر ٹہل اور ٹھٹھر رہا تھا جب اچانک میرے فون کی گھنٹی بجی اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف ایک معصوم اور انجان سی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ میں نے نام پوچھا تو جواب آیا آپ کو نام سے کیا لینا دینا بس مجھے سنیے اور سننے کے بعد مجھے راہ دکھانے میں میری مدد کیجیے۔
میں بادل ناخواستہ سڑک کے کنارے ایک عام سے کینٹین کے چبوترے پر بیٹھ گیا اور وہ بولنے لگا۔

” میں نے ایف ایس سی کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ہے اور اللہ کا شُکر ہے میں جب خود اپنے آپ پر سوچتا ہوں تو اندر سے یہ آواز محسوس کرتا ہوں کہ میں بہت کچھ کرسکتا ہوں اور مجھ میں بہت زیادہ ٹیلنٹ موجود ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ زندگی میں کچھ ایسا کروں کہ میرے والدین، رشتہ دار اساتذہ اور سب جاننے والے مجھ پر فخر کریں۔ میں نے اس کم عمر میں بہت ساری ایسی چیزیں دیکھی اور محسوس کی ہیں جن کو دیکھنے اور محسوس کرنے کے لئے کبھی کبھی عمریں تک بیت جاتی ہیں۔ مجھے خود یہ پتا نہیں کہ کہاں سے اور کب میرے اندر بڑا بننے کی یہ چنگاری سُلگ اٹھی اور کس ماحول سے میں نے یہ بات سیکھ کر پلّے باندھ لی ہے کہ زندگی ایک بار ہی ملتی ہے اور اس کو بھرپور جدوجہد، مسلسل کوشش اور بڑے خواب کے ساتھ گزارنا ہی اصل مقصد ہے۔

میں بہت ہی چھوٹا تھا جب میں نے اپنی ایک الگ دنیا بسانے کا خواب دیکھا تھا اور یہ سوچا تھا کہ جب میں بڑا آدمی بنوں گا اور میرے والد صاحب بھری محفلوں میں جب میرا تذکرہ سنیں گے تو خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔ میں حسّاس اتنا تھا کہ گھر میں جب اپنے بہن بھائیوں کی محبت دیکھا کرتا تھا تو اُن کے سامنے میں کھلّے عام یہ اظہار کیا کرتا کہ ایک دن آئے گا جب آپ سب مجھ پر فخر محسوس کریں گے۔ بڑا بننے کے لئے پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اگر میں سی ایس ایس کرلُوں تو میرے سارے خواب ادھورے نہیں رہیں گے۔ اس چنگاری کی تپش میں دن بہ دن اضافہ ہورہا تھا اور اب تو ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ آگ کا ایک ہیولہ بن کر میرے اندر کی طاقتوں کو یکجا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ایف ایس سی کے بعد میں نے ایک دن اپنے والد صاحب سے اپنی اس خواہش کا اظہار کرہی دیا۔

” ابو میں بی اے کرنا چاہتا ہوں اور اُس کے بعد میری خواہش ہے کہ میں سی ایس ایس کا امتحان دوُں“۔ ابّو نے میری بات سنی ان سنی کردی لیکن میں بھی دُھن کا پکا تھا اور ایک دن دوبارہ اپنی اس خواہش کا اظہار کر بیٹھا۔ ابُو نے جیسے ہی میری بات سنی مجھے گُھور کر دیکھا اور فرمانے لگے۔

”بیٹا تم ہی تو میرا سرمایہ افتخار ہو اور میں نے ہمیشہ تصور میں تمہیں ایک ڈاکٹر ہی کے رُوپ میں دیکھا ہے۔ میری خواہش ہے کہ تم ڈاکٹر بنو کیونکہ ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے اور میں چاہتا ہوں میرا بیٹا مسیحا بن کر معاشرے کی خدمت میں لگ جائے۔ “ میں نے جیسے ہی ابُو کی یہ انہونی سنی تو ہمّت کرکے بتا ہی دیا۔

”ابّو میں ڈاکٹر بن سکتا ہوں اور نہ بننا چاہتا ہوں آپ مجھے بس ایک موقع دیں اور یقین کریں میں جب کمیشنڈ افسر بنُوں گا تو آپ کو بہت اچھا لگے لگا۔ ابو نے جیسے ہی میری بات سنی مجھے ایک دو گالیاں دے کر وہاں سے بھگا دیا بھاگتے بھاگتے میں اُس کی یہ پُکار سن رہا تھا جو اُس لمحے ایک ان مٹ نقش بن کر میرے ذہن میں پیوست ہوگیا“ بڑا آیا آفسر بننے والا اب توُ مجھے سکھائے گا کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا ”؟

میرے دل و دماغ پر بوجھ بن گیا اور میں بھری دُنیا میں خود کو اکیلا محسوس کرنے لگا۔ ایک دن سوچا کیوں نہ اپنی ماں کی مہربان آغوش ہی کا سہارا لے لُوں۔

”بے بے میں بڑا آدمی بننا چاہتا ہوں اور جب میں بڑا آدمی بنوں گا نا تو یاد رکھنا اُس دن تم اپنی خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکوگی“ ماں نے جب میری یہ بات سنی تو میرا ہاتھ تھام کر اپنے لب کھولے، تھوڑا سا مسکرائی، آنکھوں میں نمی آئی اور کہنے لگی ”گوڈو میں تو اَن پڑھ ہوں کسی چیز کی سمجھ نہیں لیکن آپ کے ماموں آپ کو ڈاکٹر دیکھنا چاہتے ہیں اور میں اپنے بھائی کی اس خواہش کو نہیں ٹُھکراسکتی سو محنت کرو تاکہ تم بہت بڑے ڈاکٹر بن جاؤ“۔

لاحول پڑھ کر وہاں سے اٹھا اور یہ محسوس کرنے میں مجھے دیر نہ لگی کہ میرے دل و دماغ پر بوجھ اور بھی بڑھ گیا ہے۔
کچھ دنوں بعد اپنی بڑی بہن سے اپنے جنون کا تذکرہ کیا تو وہ ہڑبڑا کر بولی ”ارے جاؤ جو بننا ہے بنو مجھے تو آج ابّو سے نئے کپڑوں کی فرمائش کرنی ہے“

سارے محاذوں پر پسپائی اور پے در پے ناکامیاں دیکھ کر میں بڑے بھائی کے کمرے میں گُھس گیا اور بھائی سے کہا ”بھیّا میں چاہتا ہوں کہ بی اے میں داخلہ لے کر چند سال بعد سی ایس ایس کرکے بڑا آدمی بنوں اور آپ میرا ساتھ دیں تاکہ آسانی رہے“

بڑا بھائی موبائل میں مصروف تھا مجھے ایک نظر دیکھا اور تمسّخرانہ انداز میں گویا ہوا ”تم زندگی کے داؤ پیچ سے بے خبر ہو گوڈو۔ زندگی جب حساب مانگنے پر اتر آتی ہے تو پھر چھوٹے بڑے سب کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ پیٹ کی پوجا کے لئے انسان در در کی خاک چھانتا پھرتا ہے اسی لئے میری مانوں یہ بے کار کی ہڑبونگ چھوڑ دو اور ایٹا ٹیسٹ کی تیاریوں میں لگ جاؤ ہماری بھی خیر ہوگی اور تمہاری بھی“

میں نے دوبارہ بولنے کی کوشش کی لیکن کچھ نہ کہہ سکا کیونکہ میں اس کے قہر آلُود نگاہوں کی تاب نہ لاسکا اور بادل ناخواستہ نکل آیا۔

اُس کے بعد میں بہت دفعہ اپنے اساتذہ سے ملا لیکن نتیجہ ”وہی ڈھاک کے تین پات“ ایک استاد محترم نے تو حد ہی کردی میں نے جیسے ہی اُن سے کہا کہ سر میں اگر بی اے کے بعد سی ایس ایس کی تیاریوں میں لگ جاؤں تو کیسا رہے گا۔ وہ بولنے لگا ”یہ منہ اور مسُور کی دال۔ اپنے چہرے کی دیدار کا شرف اگر ایک دفعہ حاصل ہو تو ضرور کرلو۔ میں جانتا ہوں تم سی ایس ایس نہیں کرسکتے۔ میری مانو تو میڈیکل کا شعبہ منتخب کرلو ساری زندگی پیسے کماؤگے اور خوش بھی رہوگے“

یہاں تک کہتے کہتے معصومیت زار زار رو رہی تھی اور میں تھا کہ حیران و پریشان زندگی میں شاید پہلی دفعہ الفاظ کا متلاشی بن گیا تھا۔
میں نے پوچھا ”بیٹا آج کل کیا کر رہے ہو اور صورتحال کیا ہے“

اپنی ہچکیوں کو قابو میں لاتے ہوئے وہ کہنے لگا ”ایک سال ضائع ہوا اور اب بھی میرے والدین، اساتذہ اور بڑے بھائی کی یہی فرمائش ہے کہ میں ڈاکٹر بن کر معاشرے کے لئے مسیحا بنوں۔ والد صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ڈاکٹر بننا ہے تو بن ورنہ پاسپورٹ بنواکر کمائی کے لئے دبئی چلے جاؤ“

میں نے جب یہ سنا تو ایسا محسوس ہوا جیسے زمین ہچکولے کھا رہی ہو۔ میں نے بھی اپنے بھکرے ہمّت کو ٹٹول کر دوبارہ پوچھا ”اب کیا ارادہ ہے؟ “
ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگا ”اب اوروں کی طرح میں بھی ڈاکٹر ہی بنوں گا تاکہ والدین کی ضد، بھائی کی خواہش اور اساتذہ کی عزت برقرار رہے“

اس کی باتیں سننے کے بعد میں عجیب کیفیت میں مبتلا ہوا اور چشم تصّور میں ایسے ہزاروں نوجوانوں کو دیکھنے لگا جن کے خواب روز اپنوں کے ضدی پن، بے لگام خواہشوں اور بے نام عزتوں کی بچاؤ کی خاطر ٹوٹ جاتے ہیں۔ میں نے آج مستقبل کے ایک ایسے ”ڈاکٹر“ سے فون پر کافی طویل باتیں کی جو مریض کے سامنے جب بیٹھے گا تو خود حیران ہوگا کہ میں پہلے اس کا علاج کروُں یا اپنا۔

ایسی ہزار کہانیاں روز بنتی ہیں ہمارا کیا ہے بس ایک دوسرے کو ہمیشہ ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے کوئی خود کو ذمہ دار نہیں ٹھہرائے گا۔

میری طرح آپ بھی نوجوانوں سے ملنا شروع کریں گے تو آپ بھی صرف سر پکڑ کر سسٹم کو مورود الزام ٹھہرائیں گے اور کبھی یہ سوچنا گوارا نہیں کریں گے کہ ہم اپنے گھروں کے اندر پاکستان کے مستقبل کے ساتھ کس طرح کا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔

استاد کا خیال ہے کہ کلاس میں کتاب سے پڑھا کر وہ اپنی ذمّہ داریوں سے نبرد آزما ہوا بس اب تنخواہ میں تھوڑا اضافہ ہو تو موٹیویشن میں بھی اضافہ ہوجائے گا۔ والدین کا یہ خیال ہے کہ وہ تو خرچہ اٹھا رہے ہیں اور کیا کریں۔ حکمرانوں کو وقت نہیں مل رہا بس ہم اسی طرح نئی نسل کی بربادی کا صرف تماشا دیکھتے رہ جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).