انصاف/ حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں


پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں کے باسیوں کو انصاف یا حقوق کے حصول میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، یہ الگ معاملہ کہ یہ مشکلات اداروں کی بدولت ہوتی ہیں یا اس میں عوام کی قوانین یا حقوق کے حصول سے متعلق لاعلمی ہی ذمہ دار ٹھہرائی جا سکتی ہے۔ عام مشاہدے کے مطابق ایک عام پاکستانی شہری کو صاف پانی لے کر شناختی کارڈ تک اور پھر ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر عدالت میں انصاف کی فراہمی تک کے معاملات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہی لاعلمی قرار دی جاسکتی ہے۔ اس کا اندازہ یوں ہوا کہ ہم نے عدالتوں میں سالوں سے دھکے کھانے والوں سے دوران گپ شپ انداز ہ لگا لیا تھا‘ کہ اصل معاملہ بگڑا ہی عدالتی قوانین‘ مروجہ طریق کار سے متعلق لاعلمی کے باعث ہے۔

صاحبو! چند دن قبل ایک دوست کے ساتھ سرکاری دفتر جانے کا اتفاق ہوا۔ چوں کہ معاملہ ریونیو سے متعلق تھا اب مذکورہ دفتر کے اہل کار نے دوران گپ شپ پوچھ لیا کہ فلاں فلاں چیز موجود ہے؟ جواب میں ہمارے دوست نے آئیں بائیں شائیں سے کام لیا‘ جب مذکور اہل کار نے محسوس کر لیا کہ موصوف کے پاس کچھ نہیں تو اس نے دوسرا راستہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا ”بھائی صاحب! آپ تو اپنا معاملہ بگاڑ چکے ہیں لہٰذا اس کو سدھارنے کے لئے آپ کو اضافی اخراجات برداشت کرنا ہوں گے“۔ ان صاحب نے جو تفصیل بتائی وہ رونگٹے کھڑے کر دینے والی تھی۔

گویا ہزاروں کے ریونیو کے بدلے لاکھوں روپے کی ادائیگی۔ ہم نے واضح محسوس کر لیا کہ چوں کہ ہمارے عزیز دوست قوانین سے متعلق کورے کاغذ کے مانند تھے‘ تو کلرک مذکور نے اس لاعلمی کو بہتی گنگا سمجھ کر ہاتھ صاف کرنے کی کوشش کی۔ ہمارا وہ دوست چوں کہ ایک سیاسی گروپ سے بھی تعلق رکھتا تھا لہٰذا اس نے بنا مشورہ کے اپنے سیاسی لیڈروں کا رخ کیا۔ ہمارا ضلع پس ماندگی کا شکار ہے اور رہی سہی کسر یہاں وڈیرہ شاہی نے پوری کر رکھی ہے‘ اسے بد قسمتی سے منتج کیا جا سکتا ہے کہ یہاں دیہی علاقوں میں آج بھی لوگ اپنے بچوں کی شادیاں وڈیروں کی مرضی سے طے کرتے ہیں اورشادی کی تاریخ کا تعین بھی انھی وڈیروں کی منشا کے مطابق کیا جاتا ہے؛ بہرحال شہری حدود میں کچھ نہ کچھ صورت احوال تبدیل ہوئی‘ تاہم پس ماندگی کا شکار دیہ اور خاص طور پر ایسے علاقے جہاں ابھی علم کی روشنی پوری طرح سے نہیں پہنچی وہاں صورت احوال جوں کی توں موجود ہے۔ جب ہمارا وہ دوست اپنے سیاسی لیڈر تک پہنچا اورپھر گیم بڑھتے بڑھتے ایک سیاسی ایشو بن گیا۔

ایک ایسا شہری جو قوانین یا حقوق سے متعلق آگہی رکھتا ہو‘ اس کے لئے اتنی مشکلات نہیں ہوتیں‘ جس قد ر ایک لا علم شخص کو ہوتی ہیں۔ اپنی صحافتی زندگی میں ہم نے کئی لوگوں کو محض اس لئے ذلیل ہوتے دیکھا کہ وہ مروج طریقہ کار سے لاعلم تھے۔ ایک مثال دیکھ لیں کہ کوئی بھی شریف آدمی اول تو تھانے کا نام سنتے ہی پسینے پسینے ہو جاتا ہے۔ تاہم اگر اسے کبھی تھانے جانا پڑے تو طرح طرح کے خوف اور وسوسوں کے ساتھ جونھی وہ تھانے پہنچتا ہے تو سب سے پہلے اس کا سامنا گیٹ پرکھڑے سنتری سے ہوتا ہے‘ لیکن چوں کہ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جس مقصد کے لئے تھانے آیا ہے‘ وہ کس سے متعلق ہے‘ لہٰذا وہ سنتری ہی کو ”بادشاہ“ تصورکرتے ہوئے اپنا مدعا بیان کرتا ہے۔ اب سنتری بادشاہ اس شخص کی شرافت اور لاعلمی سے فائدہ اٹھا کر اگر غیر متعلق اہل کار کے سپرد کر دے تو یقینا اس شریف آدمی کو انصاف نہیں ملے گا۔ البتہ اس کے لئے یہ بھاگ دوڑ پیسے اور وقت کے ضیاع کے مترادف ہو گی۔

ہمارے ایک دیرینہ دوست نادرا سے منسلک ہیں۔ اہم پوسٹ پر موجود ہونے کے ساتھ ساتھ اندر سے ”انسان“ بھی ہیں۔ بتایا کرتے ہیں کہ قوانین سے لا علم شہری جب ان کے پاس آتا ہے تو وہ ا س کی رہنمائی کو فریضہ سمجھ کر ادا کرتے ہیں‘ لیکن انھیں مشکلات اس وقت پیش آتی ہیں جب اس شخص کی یہ خواہش بھی ہوتی ہے کہ دفتر سے باہر کے تمام امور بھی نادرا یا وہ خود انجام دیں۔ ان صاحب کے مطابق یہ لاعلمی نہ صرف متعلق شخص کے لئے مشکلات اور وقت کے ضیاع کا باعث بنتی ہے بلکہ ہمارے لئے کئی طرح کے مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔

تسلیم کہ پاکستان میں سرکاری دفاتر میں حقوق کا حصول مشکل تر بنا دیا گیا ہے۔ گو کہ اس کے پیچھے کئی دیگر عوامل کار فرما ہیں۔ سب سے بڑی رکاوٹ ”سرخ فیتے“ کو سمجھا جاتا ہے‘ پھر عام آدمی کے لئے حقوق کا حصول بنا ”نوٹ“ دکھائے مشکل سمجھا جاتا ہے۔ تھانوں میں انصاف کا حصول چمک کے بغیر ممکن نہیں‘ عدالتوں میں انصاف کے لئے سالوں دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ شناختی کارڈ کے حصول کے لئے دنوں کی محنتوں کی درکار ہوتی ہے۔ عام سرکاری اہل کار سے لے کر افسر تک کوئی بات نہیں سنتا۔ کسی بھی سرکاری دفاتر سے واسطہ پڑے تو کئی تلخ تجربات سامنے آ جاتے ہیں۔ یہ سارے عوامل‘ مسائل اپنی جگہ درست ہیں کہ آج تک عام آدمی کے مسائل کو سمجھ کر حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ زندگی کی بنیادی ضروریات کی فراہمی تو کجا عام آدمی کو انصاف‘ حقوق کی فراہمی کا سوچا تک نہیں گیا۔

حکومتیں آئیں چلی گئیں لیکن یہ بنیادی مسائل آج بھی جوں کے توں ہیں اور اس کی جانب محض اس لئے توجہ نہ دی جا سکی کہ شاید حکومتوں کی ترجیحات میں ان مسائل اور ضروریات کی وہ حیثیت نہ تھی جو دوسری ترجیحات کو حاصل رہیں۔ تاہم اس کے باوجود ہمارے نزدیک ابھی اندھیرا بالکل نہیں پھیلا۔ روشنی کی معمولی سی کرن ابھی باقی ہے۔ اس کرن کو آپ امید سمجھ سکتے ہیں اگر اس امید کو سہارا بنا کر حقوق کے حصول کی راہ پر چلا جائے تو یقینا بہتری کی گنجایش نکل سکتی ہے۔ ہمارے نزدیک وہ روشنی‘ وہ امید یہی ہے کہ کوئی بھی عام شہری جب اپنے حقوق یا انصاف کے حصول کے لئے متعلق ادارے کا رخ کرے تو اسے مروج طریق کار اور قوانین کی بابت علم ہو۔ جب وہ اس راہ پر چلے گا تو بے شمار راستے کھلتے جائیں گے۔

کسی دانشور کا قول یاد آ رہا ہے کہ ایک لاعلم انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہوتا ہے۔ گو کہ اسے خبر نہیں ہوتی لیکن اس کے اندر کی لاعلمی آہستہ آہستہ اسے وہاں لے جاتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنا دشمن تصور کرنے لگتا ہے۔ یقینا اب دنیا چاند کو مسخر کرنے کے بعد مریخ پر زندگی کی متلاشی ہے‘ تو لازم ہے کہ پاکستان جیسے پس ماندہ ممالک کے عوام میں شعور کی بیداری کے لئے کردار ادا کیا جائے۔ عوام کو اپنے ہونے کا اور اپنے حقوق سے متعلق آگاہی دی جائے۔ گو کہ یہ کام کئی طرح کی این جی او انجام دے رہی ہیں۔ تاہم ا س ضمن میں ایس پی او کا کردار انفرادیت کا حامل ہے۔

ان کاوشوں کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ گو کہ ابھی میڈیا سے بھی گلے شکوے موجود ہیں اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ میڈیا اپنے اصل کردار یعنی عوام میں شعور‘ آگہی بیداری سے پیچھے ہٹ کر ایشوز‘ نان ایشوز کے چکر اور ریٹنگ کے دھارے میں بہہ کر اپنی اصل منزل کھو چکا ہے۔ بہرحال اب بھی بہتری کی گنجایش موجود ہے اور یہ گنجایش اس وقت بڑھ سکتی ہے جب آگہی کا شعور پیدا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).