قائد اعظم ثانی سے سیاسی انتقام لیا جا رہا ہے


جتنی مخالفت محمد علی جناح کی ہوئی‘ کیا اُس زمانے میں کسی کی اس سے بڑھ کر بھی ہوئی؟ جن ہندوئوں نے کہا تھا کہ ہندوستان صرف اُن کی لاشوں پر تقسیم ہو سکے گا‘ اُن ہندوئوں کو آخر کیا چاہیے تھا اگر محمد علی جناح کے خلاف مالی بددیانتی کا کوئی ثبوت مل جاتا؟ ان کی تو لاٹری نکل آتی!

برصغیر کے مسلمانوں کو وہ آسانی کے ساتھ قائل کر لیتے کہ یہ شخص دولت کا رسیا ہے اور یہ مالی معاملات میں قابل اعتماد نہیں ہے۔ اس قسم کا اعلان کانگرس کے علاوہ احراریوں اور خاکساروں کے لئے بھی آسمان سے اترا ہوا من و سلویٰ ثابت ہوتا۔ مسلم لیگ کا تقسیم ہند کا سارا منصوبہ یوں اُدھڑ کر رہ جاتا جیسے سال خوردہ سویٹر کی اُون اُدھڑ جاتی ہے۔

محمد علی جناح کے شب و روز پر، آمدو رفت پر‘ خرچ اخراجات پر رہائش‘ کھانے پینے‘ سفر ‘ غرض سونے جاگنے پر ہزاروں لاکھوں آنکھوں کے کیمرے نصب تھے۔ اطلاعات ادھر سے ادھر سفرکرتی تھیں۔ دیواروں کو چھوڑ کر چھتوں کے بھی کان تھے۔ اس سارے عرصہ میں محمد علی جناح سے کسی مالی بے ضابطگی ‘ کسی بددیانتی‘ یہاں تک کہ کسی بے احتیاطی کا بھی صدور نہ ہوا۔ ایسا عجیب شخص جو مقدمہ کا فیصلہ جلد آنے پر موکل کو فیس کا کچھ حصہ واپس کر دیتا‘ اپنے معاملات میں شیشے کی طرح صاف تھا!

یہی حال لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر اور بہت سے دوسرے رہنمائوں کا تھا۔ جواہر لال نہرو کو لے لیجیے۔ مخالفتیں تھیں اور سیاسی دشمنیاں۔ مگر مالی شفافیت پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگے چالیس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا۔ اب بھی مخالفت جاری ہے۔

مسعود محمود والی سکیورٹی فورس سے لے کر دلائی کیمپ تک بیسیوں الزامات ہیں۔ مگر کسی نے آج تک یہ نہیں کہا کہ منی لانڈرنگ کی یا کِک بیک لی۔ یا کمیشن کھرا کیا یا کوئی ایسا فرنٹ مین تھا یا کوئی فرنٹ دوشیزہ تھی جو کرنسی کے صندوق ملک سے باہر لے جاتی تھی۔ذوالفقار علی بھٹو نے کوئی محل دبئی میں بنایا نہ کوئی جائداد نیو یارک یا لندن میں خریدی!!

یہ سب سیاست دان تو تھے، لیڈر تو تھے مگر اُس پائے کے نہیں تھے جس پائے کے لیڈر جناب نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری ہیں!قائد اعظم ‘ لیاقت علی خان‘ سردار عبدالرب نشتر‘ ذوالفقار علی بھٹو یا سرحد پار‘ جواہر لال نہرو نے ایسا کوئی کارنامہ نہیں انجام دیا کہ لوگ اُن سے حسد کرتے‘ اُن سے جلتے۔

یہ سب اوسط درجے کے لیڈر تھے۔ لوگوں کو کیا پڑی تھی کہ ان پر مالی بددیانتی کے الزامات لگاتے! وہ لوگوں کا‘ اپنے سیاسی حریفوں کا بگاڑ بھی کیا سکتے تھے؟ جناب میاں محمد نواز شریف اور جناب آصف علی زرداری کا ایک زمانہ دشمن ہے۔ لوگ حسد کرتے ہیں۔ اس لیے کہ تاریخ نے ان جیسے عبقری‘ ان جیسے نابغے‘ ان جیسے ابطال جلیل‘ ان جیسے زعما پیدا ہی نہیں کئے۔ جب ان کی قابلیت کا مقابلہ نہ ہو سکا تو حریف اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے۔

فیکٹریوں ‘ فلیٹوں‘ جائدادوں اور منی لانڈرنگ کے الزامات لگائے۔ جھوٹی دستاویزات بنا کر عدالتوں میں پیش کیں۔ یوں انہیں سزائیں دلوا کر اپنا سیاسی راستہ صاف کر لیا۔ آپ میاں صاحب کی بے پناہ قابلیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ رات گئے تک فائلیں دیکھتے۔ ایک ایک فائل خود پڑھتے اپنے ہاتھوں سے فیصلے لکھتے۔

صبح آٹھ بجے دفتر آ موجود ہوتے۔ ہر اجلاس کی صدارت خود کرتے۔ گھنٹوں کیا پہروں بریفنگ لیتے۔ اتنے سوال کرتے‘ اس قدر مین میکھ نکالتے کہ وزیروں اور سیکرٹریوں کے ہاتھ پائوں پھول جاتے۔ وزیر خارجہ کا منصب اپنے پاس رکھا تو ہر روز شام کو وزارت خارجہ جاتے۔ غیر ملکی رہنمائوں سے ملتے تو خود بات چیت کرتے۔

نکتے نکالتے‘ سوالات پوچھتے۔ کئی غیر ملکی سربراہوں نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اتنا تیار اور اتنا لائق سربراہ حکومت نہیں دیکھا۔ اصلاحات کو لے لیجیے۔ میاں صاحب نے تعلیم کے میدان میں بے نظیر بے مثال اصلاحات کیں۔ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کو بلا کر پہروں ان سے بحث کرتے۔ سوچ بچار کرتے۔ نئے نصاب تیار کرائے۔ پھر زرعی اصلاحات نافذ کیں۔

ایک ایک صوبائی دارالحکومت خود گئے۔ وزرائے اعلیٰ اور گورنروں سے میٹنگ کی۔ بین الصوبائی مسائل اُن کی انگلی پر رہتے تھے۔ دیانت داری کا یہ عالم تھا کہ پو پھٹے جب سرکاری فائلیں ختم کرتے تو سرکاری بلب بجھا دیتے اپنا ذاتی مٹی کا چراغ جلا کر مطالعہ شروع کر دیتے۔ مطالعہ کا شوق گھٹی میں پڑا تھا۔

دنیا کے کسی کونے میں بھی فن حکومت پر کوئی کتاب شائع ہوتی تو سب سے پہلے ان کے پاس پہنچتی۔ آصف زرداری پر جو الزامات لگ رہے ہیں ان کی تہہ میں بھی حسد کے سوا کچھ نہیں!

پانچ سالہ دور صدارت میں تعلیم‘ زرعی اصلاحات ‘ صحت اور دوسرے سماجی شعبوں پر خاص توجہ کی۔ ایک ایک وزارت جا کر بریفنگ لی۔ یونیورسٹیوں میں جا کر اساتذہ کو بیدار کیا اور قومی خدمت کی روح ان میں پھونکی۔ سیاسی حریفوں نے دیکھا کہ چندر گپت موریہ سے لے کر آج تک ایسے رہنما دنیا کو کہیں نصیب نہ ہوئے۔

یہ اہل پاکستان پر خداوند قدوس کا خاص کرم تھا کہ زرداری صاحب اور میاں صاحب جیسے محنتی‘ لائق اور دیانت دار لیڈر انہیں ملے۔ جب حریف مقابلہ نہ کر سکے تو مالی بددیانتی کا الزام لگانے پر اتر آئے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مالی معاملات سارے میاں صاحب کے والد گرامی دیکھتے تھے۔ پھر اُن کے بیٹے دیکھنے لگ گئے۔

میاں صاحب نے کاروبار کے کسی شعبے میں کوئی دلچسپی نہ لی۔ کبھی والد مرحوم سے اس ضمن میں کوئی بات کی نہ صاحبزادوں سے کوئی کاروباری تعلق رکھا۔ بلکہ باپ اور اولاد کی دولت سے بے نیاز رہ کر فقیرانہ زندگی اختیار کر لی۔

یوں بھی بطور وزیر اعظم جتنی محنت انہوں نے کی اس کے حوالے سے کاروبار کا وقت ہی ان کے پاس کہاں تھا! قائد اعظم ثانی‘ اس معاملے میں قائد اعظم اول سے آگے نکل گئے۔ قائد اعظم اول کو حریفوں نے کوئی اہمیت ہی نہ دی۔ مگر قائد اعظم ثانی پر جھوٹے الزامات لگائے۔ رہتی دنیا تک لوگ زرداری صاحب اور میاں صاحب کی دیانت خدمت خلق اور شفافیت کے تذکرے کریں گے۔ حسد کرنے والے جل جل کر خاک ہو جائیں گے۔

جلد اہل پاکستان پر بھی حقیقت منکشف ہو گی۔ وہ دن دور نہیں جب شہر شہر ان کے مجسمے کھڑے ہوں گے۔ سلیمان عالی شان ہو یا اکبر اعظم یا اورنگزیب عالم گیر‘ کوئی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔

پس تحریر۔ جناب قیوم نظامی نے سوشل میڈیا کے ذریعے جناب رضا ربانی کو ایک پیغام بھیجا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے اُس پیغام کو بلا تبصرہ شیئر کیا جا رہا ہے۔ ’’محترم رضا ربانی صاحب! ہم دونوں سیاسی ہم سفر رہے ہیں‘ ایک دوسرے کے پس منظر کو جانتے ہیں۔ آپ کے والد گرامی جناب عطا ربانی قائد اعظم کے اے ڈی سی تھے۔ انہوں نے قائد اعظم کی شخصیت اور کردار کے بارے میں اپنے ذاتی تاثرات اپنی کتاب میں بیان کئے تھے جو آپ نے یقینی طور پر پڑھے ہوں گے۔

میرا آپ سے بڑے ادب سے یہ سوال ہے کہ آپ ایسے لیڈر کے سہولت کارکیوں بنے ہوئے ہیں جن کے بارے میں آپ پوری طرح آگاہ ہیں کہ انہوں نے کرپشن اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ آپ مہربانی کر کے اپنے زندہ ضمیر کی آواز کو سنیں اور کرپٹ لیڈروں اور کرپٹ سیاسی نظام کی وکالت کر کے قائد اعظم اور اپنے عظیم باپ کی روح کو بے چین نہ کیجیے۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔‘‘

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).