نو مور دسمبر


ہم دیسیوں کے لئے دسمبر کا مہینہ بڑا اسپیشل ہوتا ہے۔ ایک خاص قسم کا رومان وابستہ ہوتا ہے اس مہینے سے۔ شاید ہم گرم علاقوں کے لوگ ہیں۔ سردی پڑنے پر خوش ہو جاتے ہیں۔ جہاں باقی ملکوں میں سردی سے نفرت کی جاتی ہے ہمیں سردی سے عشق ہوتا ہے۔ دسمبر کی بارش، دسمبر کی لمبی راتیں، محبوب کا تصور، بھاپ اڑاتی چائے جس کو پینے کی جلدی رہتی ہے مبادا ٹھنڈی نہ پڑ جائے، کاغذ کے لفافے میں لپٹی گرما گرم مونگ پھلی، مخمل کے لحاف میں منہ اندر تک کر لینا کہ باہر رکھنے سے ناک ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ موسم ٹھنڈا اور جذبات گرم۔

لیکن کیا کیجئے کہ ہمارے رومان کی کہانی بھی ہماری بقیہ زندگی کی طرح ٹریجڈی ہی ہے۔ وطن عزیز کا دسمبر یاد کرنے لگیں توستائیس دسمبر 2007 کی وہ خونی شام یاد آ جاتی ہے جب ہم اپنی امی کے ساتھ ان کی سہیلی کے گھر بیٹھے ہوئے تھے۔ سب گرما گرم چکن کارن سوپ کے مزے لوٹ رہے تھے۔ نرم گرم سوئٹروں میں بیٹھے تھے۔ گیس کے ہیٹروں پر ہاتھ سینک رہے تھے۔ لیکن عجیب بات ہے نا کہ کسی بھی طوفان سے پہلے ایک سکوت ہوتا ہے۔ پرندے چیخنا شروع کر دیتے ہیں۔ جانور بے چین ہو جاتے ہیں لیکن انسان پر ایک جمود طاری ہوتا ہے۔ جیسے ہی وہ طوفان آتا ہے ایک دم ہوش آتا ہے۔ لیکن تب تک سب بہہ چکا ہوتا ہے۔ سب پل ٹوٹ چکے ہوتے ہیں۔ وہی سب جو ایک پل ہوتا ہے وہ اگلے پل نہیں ہوتا۔

یہ وہی شام تھی جب ہماری رانی بینظیر بھٹو کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ وہ شیرنی اگلے جہاں بھی سب کو للکارتی ہوئی چل پڑی۔ قیامت کا دن کوئی اور تو نہ تھا۔ یہی تھا۔
لیکن وہ کیا ہے کہ قیامت تو ایک دن آنی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ قیامت رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ قسطوں میں آتی ہے۔ ایک ایک کر کے سب کو لے جاتی ہے۔ ایک دفعہ ہی سب کا خون پی جانے پر اکتفا نہیں کرتی۔

سولہ دسمبر 2014 کا دن آ گیا جب ملکی تاریخ کی سفاک ترین دہشت گردی کا نشانہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے معصوم بچے بن گئے۔ بھیڑیے تو اس قدر ظالم نہیں ہوتے۔ یہ لوگ کون تھے؟ سب جانتے ہیں لیکن سب ہی خاموش ہیں۔ جو بولتے تھے وہ خاموش کر دیے گئے۔ کلاک ٹک ٹک چلتا رہا۔

پچیس دسمبر 2018 بھی آ گیا۔ وہی ٹھنڈا ٹھار دسمبر، وہی رومانوی مہینہ۔ وہی خون کی لیلا۔ علی رضا عابدی کی دھیمی دھیمی شریرمسکراہٹ کو سات اندھی گولیوں سے ختم کر دیا گیا۔ جن کو تھا خود پہ ناز ان کی زبان درازی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ ٹوئٹر پر ان کے شریر چٹکلوں سے ہمیشہ کے لیے نجات پا لی گئی۔ جاؤ بھیا، آسمانوں کا رخ کرو۔ یہاں تم جیسے جی داروں کی کوئی ضرورت نہیں۔

آہ دسمبر آہ۔
یہاں آسٹریلیا میں سب نئے سال کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ سڑکوں پر ناچ رہے ہیں۔ ممخمور نظروں سے محبوب کو دیکھتے ہیں۔ ہنستے ہیں۔ خوشی کے نغمے گاتے ہیں۔ مسرور ہیں۔ نازاں ہیں۔

لیکن ہمیں اس سال کا کوئی انتظار نہیں۔ یہ سال بھی آئے گا۔ بجلی کی سرعت سے گزرے گا۔ دسمبر کا مہینہ آئے گا۔ چائے کی بھاپ ختم ہونے سے پہلے ہی کسی کی زندگی کا چراغ گل کر دیا جائے گا۔ اب تو ہمارے پاس کھونے کو بھی کچھ نہیں بچا۔ اب کس کے خون کا خراج دیں گے؟

بھیا، رکھو اپنا نیا سال اپنے پاس ہی۔ کیا کہا؟ ہمارے پاس یہ آپشن نہیں؟ اچھا۔ تو پھر دسمبر اپنے پاس ہی رکھ لو۔ ہم اس لحاف کے بغیر جینا سیکھ لیں گے جو جب کوئی ایک دم کھینچتا ہے تو تن بدن میں ایک منجمد سرد لہر دوڑ جاتی ہے۔ ہر طرف سکوت چھا جاتا ہے۔ موت کا سکوت!
تھینک یو فار دسمبر ان آل دیز ائیرز! نو مور!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).