ناول ٹوٹی ہوئی دیوار ۔۔ نویں قسط


وقت: دو بج کر تیس منٹ رات
تاریخ: 7 نومبر، 2015
مقام: مسی ساگا۔ کینیڈا

اچانک سیل کی کی وابریشن کی آوازسے ثانیہ چونک گئی، دوسری طرف دلیپ ہی تھا۔
وہی ہوا جس کی امید تھی دلیپ، اِٹس آل میسی ناؤ، مما پپا کو پتا چل گیا، اُنھوں نے ہمیں ساتھ دیکھ لیا ہے، اسٹار بکس میں، ’ناؤ دے ار تھریٹننگ دیٹ، دے وونٹ لیٹ می گو ٹو یونیورسٹی اینی مور۔
اُس نے سب کچھ ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔
دلیپ کی ایک گہری سانس کی آواز اُسے سنائی دی، ’ویل دس از ناٹ گڈ‘۔

”اب کیا ہوگا یار‘‘۔ ثانیہ کی آواز میں پریشانی کے ساتھ ساتھ ڈپریشن بھی تھا۔
”میرا خیال ہے ہمیں تھوڑا سا بریک دینا چاہیے اور چپ چپ دیکھنا چاہیے۔ چیزیں کس طرف جارہی ہیں۔ کیا خیال ہے؟“
دلیپ ٹھہر ٹھہر کر سوچتے ہوئے بولا۔

”یار مما پاپا بالکل سے میڈ جیسے ہو رہے ہیں۔ ڈونٹ یو اینڈر اسٹینڈ ۔ تمھارا گیٹ اپ دیکھ کر پرابلم ہو گیا۔ ڈیٹنگ، پھر وہ بھی ایک سکھ کے ساتھ۔ ناٹ ایون مسلم۔ آئی ٹولڈ یو یار مائی پیرنٹس آر ویری ٹریڈیشنل اینڈ کنزر ویٹو ثانیہ نے روہانسا ہو کر کہا۔
”خیر ہے یار، تم پر یشان نہ ہو اور پھر تمھیں پتا ہی ہے ناں، ہم بھی کہاں کچھ اچھے کی امید کر رہے تھے۔ مجھے پتا ہے میرے ماں باپ نے بھی سر ہی پھوڑنا ہے۔ وہ بھی اُنھی کی طرح ہیں‘‘۔ دلیپ ڈھارس بندھاتے ہوئے کہنے لگا، ’’ابھی دو چار دن ٹھہر جاو، دیکھو تو سہی اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘‘۔

”پتا نہیں یار بیٹھتا بھی ہے یا نہیں۔ مجھے تو چھلانگیں لگاتے ہوئے ہی دکھائی رہا ہے‘‘۔ ثانیہ فون پر بڑبڑانے لگی۔
”اچھا سنو پریشان نہ ہو۔ کچھ چکر چلاتے ہیں‘‘۔ دلیپ نے آہستہ سے کہا۔
”کیا چکر چلاتے ہیں، گھر سے لے کر بھاگو گے کیا؟ فلم چل رہی ہے کوئی یار؟ یہ کوئی بالی ووڈ ہے کیا؟ یار تمھیں نہیں پتا، وہ تو ابھی سے میرا رشتہ ڈھونڈنے کی عجیب عجیب باتیں کر رہیں ہیں‘‘۔ ثانیہ نے جواب دیا۔

”یار یہ کوئی انڈیا یا پاکستان نہیں ہے، جس سے تمھارا جی چاہا شادی کر دیں۔ تھوڑی سی ہمت کرو، جب تک تم نہیں چاہو گی، تمھارا ہمارا کچھ بھی نہیں بگڑے گا۔ سمجھا کرو، مجھے ذرا دیکھنے تو دومیرے گھر والے کیسے ری ایکٹ کرتے ہیں! فرق صرف اتنا ہے کہ مجھے خود انھیں بتانا ہو گا۔ ابا جی کی تو خیر ہے، پر بے جی تو مجھے مار ہی دے گی‘‘۔ دلیپ اپنی ماں کو بے جی کہتا تھا۔ ”تم پر یشان مت ہو، میں آج ہی سری نگر کال کرتا ہوں، گھر پر۔ ابا جی کو تو پہلے میں کانفیڈ نس میں لے لوں، اگر وہی ہتھے سے اکھڑ گئے تو پھر مجھے دیکھنا ہو گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ادھر سے بولیں کہ اوئے تجھے کینیڈا پڑھنے بھیجا تھا اور تو اُدھر یہ کام کر رہا ہے؟ لیٹس سی فرسٹ یار، بس پر یشان نہ ہو، کوئی نا کوئی راستہ تو نکل ہی آئے گا۔ !“ دلیپ نے ایک ہی سانس میں دلاسے تسلیاں، خدشات اور پلانز کم و بیش سبھی کچھ کا تذکرہ کر دیا۔

”خیر تمھارے مما پپا کم از کم یہاں تو نہیں ہیں، مگر مجھے تو یہی رہنا ہے ناں۔ روزانہ اُن کی ناراض شکلیں د یکھنی ہیں، ڈانٹ کھانی ہے، غصہ برداشت کرنا ہے۔“ ثانیہ پھر سے بڑ بڑانے لگی۔
”ہاں مگر یار میں تو ہندوستانی شہری ہوں اور تو کینیڈین اور پھر یہ بھی تو دیکھو یار کل میرے اسٹوڈنٹ ویزے نے ختم ہو جانا ہے، پھر مجھے بھی جا کر اُنھی کو دیکھنا ہے نا یار۔“ دلیپ نے جواب دیا
”دلیپ۔“ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد ثانیہ نے ہچکچاتے ہوئے آہستہ سے کہا، ”یار تو مجھ سے پیار توکرتا ہے ناں؟“

”نہیں دشمنی ہے تیری میری۔“ دلیپ نے اُس کی بات کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، ”کیسے ثابت کرنا ہے، اب یہ بھی بتا دو‘‘؟
ثانیہ کچھ دیر تک چپ رہی پھر کہنے لگی، ”نہیں، یونھی بس خیال آیا تھا، اس لیے پوچھ لیا“۔

ثانیہ کے اس جملے کے بعد دونوں طرف سے کچھ دیر کے لیے خاموشی ہو گئی۔ صرف ہلکی ہلکی سانسوں کی آوازیں آپس میں باتیں کرتی رہیں۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور ثانیہ کے خیالوں کا سلسلہ ٹوٹ گیا، ”دلیپ دروازے پر کوئی ہے، میں پھر بات کرتی ہوں“۔ یہ کہہ کر ثانیہ نے جھٹکے سے سیل فون آف کر دیا۔ دروازے پر مما تھی، چہرے پر ابھی تک تھوڑی دیر پہلے والا کھنچاؤ تھا، جو کچھ دیر قبل غصے کے ساتھ تھا مگر اب غصہ اسٹریس میں بدل چکا تھا۔ البتہ آنکھوں میں اب گہرے دکھ کی کیفیت تھی۔ کچھ کچھ نا امیدی بھی تھی یا شاید ثانیہ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا۔ کیوں کہ وہ خود اندر سے نا امید اور ڈپریس تھی۔

”سیل فون دے دو اپنا۔ تیرے ابو منگوا رہے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے اپنا ایک ہاتھ اُس کی طرف پھیلا کر کہا۔
”مما ڈو یو تھنک اِٹ از فیر‘‘؟
’’میں نہیں جانتی، زیادہ بکواس نہیں کر‘‘۔ مما نے چڑ کر کہا۔

”آپ لوگ کیوں ایسے روایتی لوگوں کی طرح بی ہیو کر رہے ہیں‘‘؟ اُس نے تھوڑا تنک کر کہا۔
”ہاں ہاں ہم لوگ ایسے ہی ہیں۔ روایتی قسم کے لوگ ہیں، تم سیل فون دے دو، مجھے‘‘۔ مما نے چڑ کر جواب دیا۔
ثانیہ مڑی اور میز سے سیل فون اُٹھا کر مما کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیا۔
”پاسورڈ کیا ہے‘‘؟ مما نے فون ہاتھ میں لے کر کہا۔

’‘ ڈی آئی ایل آئی پی‘‘۔ ثانیہ نے جواب دیا۔
”دلیپ نام ہے اس کا‘‘؟ مما نے ثانیہ کو گھورتے ہوئے کہا۔
”ہاں“ ثانیہ نے آہستہ سے کہا۔
”چل ٹھیک ہے۔ بھوک لگی ہے تو نیچے کچن میں آکر کھانا کھا لینا، میز پر لگا ہوا ہے‘‘۔ اماں نے جیسے احسان کرتے ہوئے اُس سے کہا۔

”مجھے نہیں ہے کوئی بھوک ووک۔“ ثانیہ نے چڑ کر کہا اور مما کے جانے کے بعد دروازہ زور سے بند کر لیا اور پھر پلٹ کر آکر بستر پر آڑھی لیٹ گئی۔ پہلے تو وہ یونھی کمرے کی دیوار کو کچھ دیر تکتی رہی، پھر اچانک اُٹھی اور جلدی سے کمپیوٹر پر ہاٹ میل پر لاگ اِن ہو کر دلیپ کو ای میل لکھنے لگی۔

(دسویں قسط اگلے ہفتے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).