جہاں علم کے دریا متعفن جوہڑ بن گئے ہیں


جون ایلیا فرما گئے ہیں:

حاصل کن ہے یہ جہان خراب
یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں

پھر بنایا خدا نے آدم کو
اپنی صورت پہ ایسی صورت میں

اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں

اے خدا جو کہیں نہیں موجود
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

آدمی۔ جسے حیوان ناطق بھی کہا جاتا ہے۔ اسی صلاحیت نطق کے بل بوتے پر آدمی نے منطق کا علم دریافت کیا۔ منطق کے تیشے سے فلسفے کے پہاڑ کھود کر تعلیم، عمرانیات، سماجیات اور سیاسیات وغیرہ کے دریا بہائے گئے، اور پھر تمام کرہ ارض پر ان علوم کے دریاوں کے دھارے موجیں مارنے لگے۔ زرخیز دریائی مٹی سے مردم خیز کھیتیاں لہلانے لگیں۔ جن منطقوں کے آدمی نے کرہ ارض کے وسیع تر مفاد میں اس کی بہ بود کی خاطر فلاحت کی، ریاضت کی، جد و جہد کی، اور علم کے دریاوں پر بند نہیں باندھے۔

فلسفہ اور اس سے نتھی علوم اپنی فطری روانی اور بہاؤ کے ساتھ ان خطہ ہائے ارض کو سیراب کرتے چلے گئے۔ سرحدوں کی پابندیوں سے آزاد، زبان و عقائد کے تفرقے سے بے پروا، رنگ، نسل اور جنس کے امیتاز سے بے نیاز۔ کرہ ارض کے ان منطقوں میں سیاسی و سماجی علوم کے فیوض و برکات سے ہر خاص و عام مستفید ہوا۔ آدمی نے حیوان ناطق ہونے کا حق ادا کر دیا۔ اس کی سال ہا سال کی ریاضتیں رنگ لائیں۔ آدمی نے اپنے خیال و خواب کی درست تعبیر پائی۔

اسے فلاح و بہبود کی راہ عمل میں آسودگی حاصل ہوئی۔ نطق کی آزادی حاصل ہونے سے آدمی نے تحریر و تقریر کے ذریعے مکالمے کے کلچر کو فروغ دیا۔ عدم برداشت کی خصلت کو ہر ممکن طور پر حیوان محض تک محدود کر دیا گیا۔ احترام آدمیت لازم ٹھہرایا گیا۔ سیاسیات کے اصولوں کی پاس داری کی گئی۔ عمرانی معائدوں کو مقدس مان کر ان پر کار بند رہا گیا۔ ان منطقوں کے آدمی کو اپنی جد و جہد اور ریاضتوں کا پھل ذہنی آسودگی کی شکل میں مل چکا ہے۔

لیکن اسی کرہ ارض پر بسنے والے چند دوسرے منطقوں کے آدمی نے علوم کے دریاؤں پر بند باندھ کر اپنی من مانی تاویلات کرنی چاہیں۔ فلسفہ، منطق، عمرانیات، سماجیات اور سیاسیات کے بہتے صاف شفاف پانیوں کا راستہ روک کر انھیں پر تعفن جوہڑوں میں تبدیل کر دیا۔ زمین کے ان منطقوں میں علوم کی غیر منطقی تاویلات پیش کی گئیں۔ نطق پر پا بندیاں عائد کی گئیں۔ عمرانی معاہدوں کا تمسخر اڑایا گیا۔ سیاسیات کے اصولوں کی عصمت تار تار کر دی گئی۔ مکالمے کو دشنام طرازی میں تبدیل کر دیا گیا۔ عدم برداشت کا چلن عام کر دیا گیا۔

کرہ ارض کے ان خطوں کا آدمی حیوان ناطق کے درجے سے تنزلی پا کر حیوان محض بن کر رہ گیا۔ اور اس حیوان کے مقدر میں شام و سحر، آتش شکم بجھانے کی تگ و دو میں لگے رہنا لکھ دیا گیا۔ لذت کام و دہن کے اسباب تلاش کرنا اور افرائش نسل یا حظ جسمانی اٹھانے کے وظائف کا ایندھن بننا اس کی زندگی کا منتہا و مقصود ٹھہرا۔ سرمائے میں اضافہ کرنے کے لئے وہ کارخانوں کی مشینری کا ایک کل پرزہ بن گیا۔ جو اپنی فرسودگی کی معیاد پوری ہونے پر دوسرے کل پرزے سے تبدیل کر دیا جاتا ہے۔

لیکن کرہ ارض کے ان منطقوں میں جہاں علوم کے دریاوں کو جوہڑوں میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں آدمی حیوان محض بن جانے کے باوجود نطق کے بوجھ تلے دبا ہوا علوم حاصل کرنے کی سخت ریاضتیں کرتا رہا۔ مشقیں اٹھاتا رہا۔ دماغ سوزی کرتا رہا۔ خون جگر جلاتا رہا۔ شفاف، اجلے، چمکیلے پانیوں جیسے علوم سیکھنے کی سعی مسلسل کے بعد اس کی تعبیر، گندے، بدبودار کیچڑ کی صورت میں پانے پر وہ آدمی نہ تو سینہ کوبی کر سکا اور نا ہی ماتم کناں ہو سکا۔

کیوں کہ اس کی صلاحیت نطق پر، تحریر و تقریر کی آزادی پر قدغنیں لگا دی گئیں۔ ایسے حیوان ناطق کو انھی خطوں میں سے ایک مردم خیز خطے کے ایک جلیل القدر، سخن پرور آدمی نے کبھی حیوان ظریف کہ کر پکارا تھا۔ لیکن فی زمانہ اس کی ظرافت گہنا چکی ہے۔ کرہ ارض کے ان خطوں جہاں نطق پر قدغنیں لگائی گئی ہیں، میں سے ایک خطہ مہا پربت کی اترائیوں سے لے کر مہا ساگر کی تنگ نائیوں تک دراز ہے۔

اس منطقے کا آدمی فلسفہ، عمرانیات، سماجیات، سیاسیات اور دوسرے علوم کے بہتے دریاوں کا شناور رہا ہے۔ ان علوم سے بہرہ مند ہونے اور فیض اٹھانے والے منطقوں کے لوگوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لیکن اپنے خطے میں ان علوم کی ترویج بہتے پانیوں کی طرح کرنے سے قاصر ہے۔ سیاسیات کے اصولوں کی دھجیاں اڑتے دیکھ رہا ہے۔ عمرانی معاہدوں کو پامال ہوتا دیکھ کر انگشت بدندان گم سم کھڑا ہے۔ غیر منطقی بیانیوں کو سن کر سناٹے میں ہے۔

ایک حیوان محض بن کر حیاتیاتی وظائف سر انجام دینے میں جتا ہوا ہے۔ سرمایہ پیدا کرنے کی مشینری کا معیادی کل پرزہ بنا ہوا ہے۔ اگر وہ کرہ ارض کے دوسرے چوپایوں کی طرح ان علوم سے نا بلد اور بے نیاز ہوتا تو وہ کسی قسم کا شکوہ کرنے میں حق بجانب بھی نہ ہوتا۔ مگر اس حیوان ظریف کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہوئی کے اس کو حیوان محض کا کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ حیوان ناطق کا کردار نبھاتے ہوئے اس نے ان علوم کو سیکھنے کی تمام مشقتیں بھی برداشت کیں۔ کڑی ریاضتیں کیں، صعوبتیں جھیلیں۔ تعبیر مگر اسے پر تعفن کیچڑ زدہ جوہڑ کی شکل میں ملی۔ شفاف پانیوں میں تیرتی سنہری مچھلیاں اس کی دست رس سے ہنوز دور ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے کیسے ابتدائی دور ہی میں بھانپ لیا تھا۔

گلشن گلشن پھول۔ دامن دامن دھول
ہر جذبہ مصلوب۔ ہر خواہش مقتول
جینے پر تعزیر۔ مرنے پر محصول
کلمہ حق معتوب۔ مکر و ریا مقبول

اب اس منطقے کا آدمی ایسے ماحول میں اگر یہ شکوہ بھی نہ کرے۔

اے خدا جو کہیں نہیں موجود
کیا لکھا ہے ہماری قسمت میں

تو کیا کرے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).