اقلیت کے حقوق پر ڈراما


پچھلے چند دنوں سے ملک میں طرح طرح کے ڈرامے دیکھ کر خود پر بہت قابو پایا کہ چھوڑو نظر انداز کر دو، بار بار دل مجبور کرتا رہا کہ نہیں کچھ چیزوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ لکھنا چاہیے۔ مگر میں نے دل و دماغ دونوں کو شکست دی کہ نہیں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، بس ہونے دو؛ میرا کیا کام میں ان تمام مسائل پر کیوں لکھوں۔ جب لوگ اپنے قائدین کی حماقتوں پر بھی احادیث و قرآنی آیات پیش کرنا شروع ہو گئے ہیں، تو ایسے میں لکھنا فائدہ نہیں پہنچاتا، کیوں کہ شخصیت پرستی ناسور بن کر دماغوں میں سرایت کر چکی ہے۔ ایسی صورت میں علاج کرنا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ بہتر ہے مریض کو توکل پر چھوڑ دینا چاہیے۔ شاید کوئی معجزہ ہو جائے اور مریض شفا یاب ہو جائے۔

آج تو حد ہو گئی کسی نے ہر غلط کام ہر غیرشرعی کام کے لئے یہ منطق پیش کی کہ اگر کسی غیر مسلم کو آپ کی کسی بات سے خوشی ملتی ہے تو وہ بات کہنے میں حرج ہی کیا ہے؟
یقین جانیے ایسی دلیلیں سن کر ایسا لگتا ہے مریض کو زہر پلا دیا جائے تا کہ تن درست لوگوں کے لئے نقصان دہ نہ ہو۔ میں وہ زہر اختصار کے ساتھ پلانے جا رہا ہوں۔

سب سے پہلی بات ریاستِ مدینہ کی آڑ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا ریاستِ مدینہ کے ساتھ دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔ تمام مکاتبِ فکر متحد ہو کر ایک پریس کانفرنس کریں کہ ریاستِ مدینہ کے نام پر عامتہ الناس کو بے وقوف نہ بنایا جائے۔ جو نعرہ لگایا گیا ہے، اس کا ریاستِ مدینہ سے کوئی تعلق نہیں، ہاں حکمران جو کرنا چاہتے ہیں، اپنی پارٹی کا منشور سمجھ کر کرتے رہیں، مگر ریاستِ مدینہ کے تصور میں یہ سب کرنا کسی اعتبار سے درست نہیں۔

دوسری بات مسلمان کا مسلمان ہونا ہی اقلیتوں کے لئے سب سے بہترین عمل اور قابلِ اعتماد ہونا ہے۔ جو مسلمان اپنے مسلمان ہونے پر سمجھوتا کر سکتا ہے، وہ کسی بھی وقت منافقت کر کے اقلتیوں کے لئے نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔ اسلام واضح طور اقلیتوں کے حقوق کی بات ہی نہیں کرتا بلکہ ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت بھی دیتا ہے اور یہ سب وہی مسلمان کر سکتا ہے جو اپنے عقائد کے اعتبار سے پختہ مسلمان ہو۔

اپنے مفادات کے لئے منافقت کا جامہ اوڑھنا کسی بھی وقت اتر سکتا ہے۔ اقلیتی برادری اپنی عبادت گاہوں میں جائیں انھیں مکمل آزادی ہے مگر یہ کہاں کا اقلیتی حقوق کا تحفظ ہے کہ کوئی مسلمان اپنے عقائد پر سمجھوتا کر لے۔

جو لوگ آج کرسمس کو منا رہے ہیں، اور دلیل دے رہے ہیں، ہمارے نزدیک تو حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی ہے، وہی لوگ کل ہولی اور دیوالی یہاں تک مندر میں مورتیاں چڑھانے کو بھی درست سمجھیں گے، اور اسے بھی اسلام کا پیغام سمجھیں گے۔ ایسے دوغلے لوگ کبھی بھی قابلِ اعتبار نہیں ہوتے، نہ مسلمانوں کے نزدیک اور نہ غیر مسلمین کے نزدیک۔ اقلتیں تو مسلمانوں پر اس لیے یقین کرتی ہیں کہ ان کا دین انھیں ہمارے حقوق تلف کرنے سے منع کرتا ہے۔ جب اقلتیوں کو یہ پتا چل جائے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر بھی سمجھوتا کر چکا ہے، اب یہ ہمارے لیے کیسے قابلِ اعتماد ہو سکتا ہے، کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمارے حقوق کا تحفظ کرے گا۔

بہتر یہی ہے منافقت کی بجائے اسلامی تعلیمات اپنائی جائیں۔ اسلامی تعلیمات ہی در اصل اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات سے منہ پھیر کر یا سمجھوتا کر کے کوئی مسلمان نہ اپنے مسلمانوں کے لئے قابلِ یقین ہے اور نہ اقلیتوں کے لئے قابلِ اعتماد ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).