عورت کے خلاف لبرلز کی سازش


جب تک عورت کے استحصال، جنسی گھٹن اور جذباتی توڑ پھوڑ کے خلاف آواز نہ اٹھائی جائے آپ لبرل نہیں کہلا سکتے اور ہمارے ہاں اب دو ہی طبقات رہ گئے ہیں جو ہر معاملہ میں واضح طور پر غیر حقیقت پسندانہ اور طے شدہ خیالات رکھتے ہیں اور ہر واقعہ کو اپنے سطحی سے نظریات کی چکی میں پیسنا شروع کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک جنگ چھڑ جاتی ہے اور چند دن ایک طوفان بدتمیزی بپا رہتا ہے پھر دونوں فریقین ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ میں نے ان کے نظریات کو سطحی اس لیے کہا کہ دانشور حضرات ایک سستا سا لینز لے کر بیٹھے ہیں اور واقعات کو اس آئینے سے دیکھ رہے ہیں۔

حیرت ہوتی ہے کہ ایک تین سال کی بچی ایبٹ آباد میں درندگی کا نشانہ بنتی ہے اور لبرل حضرات اسے ریاست کے مذہبی کردار سے مملو کرتے ہیں۔ مذہبی اور رجعت پسند لوگ اسے شیطان کا بہکاوا قرار دیتے ہیں۔ انفرادیت پسندی کی جگہ جنسی آزادی کے نعروں نے لے لی ہے۔ معاشی استحصال کو لبرل لوگ جمہوریت میں روڑے اٹکانے سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ نان لبرلز اسے کرپشن کا شاخسانہ کہتے ہیں۔ عورت کے معاملہ پر بھی ایسی ہی سطحیت دونوں اطراف پائی جاتی ہے۔

لبرل زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو سوویت یونین کے انہدام کے بعد سوشلزم سے لٹے پٹے آئے اور غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ وابستہ ہو کر مختلف سماجی برائیوں کا قلع قمع کرنے لگے یا کم از کم اس کا دعویٰ کرنے لگے۔ ان سماجی برائیوں میں سب سے زیادہ شور غریب عورتوں کی داد رسی اور امیر عورتوں کی جنسی گھٹن کا مچایا گیا۔ جس لبرل دانشور نے عورت کو بستر میں عزت دو کا نعرہ لگایا وہ عورت کے احساس کو پا گیا۔ عورت کو ہمیشہ یہ غلط فہمی رہتی ہے کہ جو شخص کھیل سے باہر بیٹھا ہے وہ زیادہ احساس رکھتا ہے اور جو گدھا اس کے لیے تارے توڑ کر لا رہا ہے وہ تو پیدا ہی چغد ہوا تھا اور اگر وہ یعنی عورت اس کی زندگی میں نہ آتی تو اب تک مرادیں پانے کے لیے درباروں کی خاک چھان رہا ہوتا۔

پچھلے دنوں ایک فیس بکی دانشور کو عورت کی جنسی گھٹن اور لاچاری کا رونا روتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور سمجھانے کی کوشش کی کہ جناب یہ فروعی مسائل ہیں اور معاشی نظام کے بدلنے سے آگے بڑھتے ہیں۔ آ پ کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ عورت اپنی جنسی خواہش کا کھل کر اظہار کیوں نہیں کر سکتی۔ اس کے جذبات کی تسکین کا خیال کیے بغیر ازدواجی تعلق کی کیا اہمیت ہے؟ اگر عورت کا دل کہیں اور ہے تو وہ کانٹوں کے بستر پر کیوں سو رہی ہے وغیرہ وغیرہ

مجھے حیرت ہوئی کہ علی عباس جلالپوری جیسے دانشور کی صاحبزادی بھی عورت کی آزادی کو انہیں سطحی مسائل سے منطبق کرتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ جس طبقہ میں عورت کو یہ سب آزادیاں حاصل ہیں وہاں بھی اطمینان قلب و جسم مکمل طور پر حاصل نہیں اور اگر کسی مہ رخ نے قلب و جسم کی یہ تسکین حاصل کر بھی لی وہ باقی زندگی شوہر کے ساتھ رہنے کی بجائے کسی اچھی نسل کا کتا پالنے کو ترجیح دیتی ہے اور یا پھر عورت ہی میں گداز ڈھونڈتی پھرتی ہے۔

ہمارے لبرلز جتنا چاہیں رشک کریں یورپ میں عورت کی آزادی پر لیکن یاد رہے مرد نے بڑی چالاکی سے اسے اپنی عیاشی کا سامان مہیا کرنے پر لگا دیا ہے۔ ہمارے ہاں تو پیروں کی مہندی سے لے کر ماتھے کی بندیا تک کا انتظام کرنا پڑتا ہے محبوب کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جبکہ وہاں سنگدل سے سنگدل محبوب بھی فری میں ڈنر نہیں کرتا۔

وہ یہاں تک لے آئے ہیں کہ کم ازکم نیو ائیر نائٹ پر سان فرانسسکو یونیورسٹی میں صبح سویرے اتنے شبنم کے قطرے نہیں تھے جتنے کونڈمز۔ میرا جسم میری مرضی، مرد کی عیاشی اور ساتھ پڑے چغد پر دشنام طرازی۔ یہاں بھی لبرلز نے ایسے نعروں پر بڑی واہ واہ کی اور ذرا آگے بڑھ گئے ہیں۔

لبرلز عورت کے ساتھ ایک اور ظلم ہم جنسیت کا جواز پیش کرنے میں کرتے ہیں اور عورتیں بے چاری چپ کہ اب کیا کہیں کیونکہ اب تو مرد کی دوسری عورتوں کی طرف مائل ہونے، اپنی مرضی مسلط کرنے، تسکین بہم نہ پہچانے کے گلے ہیں پھر مرد کی عورت بیزاری شروع ہو جائے گی، اس نوع سے اس کا دل بھر جائے گا، سارا فیمینزم، جو کہ ایک بہت بڑا ڈھکوسلہ ہے انہیں تپتے صحرا کی مانند بیاباں بنا دے گا، بنجر کر دے گا۔ دلیل یہ ہے کہ بھئی جب ایک شخص کو مزا ہی نہیں آتا عورت کے ساتھ یا اس کو خود پر اختیار ہی نہیں تو وہ بے چارہ کیا کرے۔

بہت ہی بودی دلیل ہے۔ جن درندوں کو معصوم بچیوں کی عزتیں تار تار کرنے کا چسکا پڑ جائے، کل آپ اس حرام زادے کی بھی تسکیں کو جواز بخش دیجیے گا۔ لاشوں کے ساتھ بھی بہت لطف آتا ہے جنسی سرگرمی میں کچھ ذہنی اپاہجوں کو، ان کا بھی دفاع کر لینا۔ لبرلز کی ساری دانشوری جنسیت تک رہ گئی ہے اور یقین کیجیے یہ ہم جنسیت سے بھی آگے جائیں گے، جانوروں اور انسانوں میں تعلقات کا دم بھریں گے غرض یہ کہ جنسی تشفی نہیں ہو گی گو کہ ہر ہر حربہ آزمایا جائے گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2