سندھ کا عوامی شاعر


سندھی زبان کے 4 بڑے شعرا ٕ کو عظیم شاعر کا درجہ دیا جاتاہے۔ ان میں حضرت شاہ عبدالطیف بھٹائی حضرت سچل سرمست رح ہندو صوفی شاعر چین رائے سامی اور شیخ ایاز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جدید سندھی شعرا ٕ میں استاد بخاری تاجل بیوس ابراہیم منشی ادل سومرو حسن درس اور عبدالغفار تبسم بھی صف اوّل کے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ تاہم شاہ لطیف کے بعد شیخ ایاز کا مقام ہے جس کو لطیف ثانی بھی کہا جاتا ہے

شیخ ایاز جس کا اصل نام مبارک علی ہے 23 مارچ 1928 کو کراچی میں غلام حسین شیخ کے گھر شکارپور میں پیدا ہوا اور 28 دسمبر 1997 کو کراچی میں انتقال ہوا ایاز نے اپنی شاعری کی ابتدا اردو سے کی جس کا پہلا اردو شعری مجموعہ بوئے گل نالہ دل شایع ہوا جس کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی اور رائیٹرز گلڈ سے ایوارڈ بھی دیا گیا مگر اس نے بعد میں سندھی ادب اور شاعری پر خصوصی توجہ دی

شیخ ایاز نے سندھی اور اردو دونوں زبانوں سے بھرپور محبت کے اظہار اور ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے سندھی کے آفاقی اور لاثانی شاعر شاہ لطیف رح کی شاعری شاہ جو رسالو کا اردو میں ترجمہ کیا جس کو بہت پسند کیا گیا اور سندھی اور اردو کے ادبی حلقوں میں یہ ترجمہ ان کی پہچان اور حوالہ بن گیا۔

شیخ ایاز نہ صرف ادیب و شاعر بلکہ وہ دانشور تعلیمی و قانونی ماہر اور معتبر مترجم بھی تھے۔ وہ سندھ یونیورسٹی جام شورو کے وائس چانسلر کے منصب پر بھی فائز رہے وہ سندھ کے عاشق اور عوامی شاعر تھے سندھ کے عوام اور نوجوان طبقے میں ان کی بہت زیادہ مقبولیت رہی۔ نوجوان طلبہ اور طالبات ان کو دیوتا اور ایک افسانوی شخصیت کا درجہ دیتے تھے اور یہ مقام اور احترام ان کو اب بھی حاصل ہے۔ انہوں نے آمریت اور سامراجیت اور استحصالی طبقہ کے خلاف تحریر تقریر اور شاعری میں آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ سندھی عوام کی آواز بن گئے۔ انہوں نے مزاحمتی ادب اور شاعری اختیار کی جس کی نظموں اور گیتوں پر سندھی بولنے والے مرد و خواتین بوڑھے جوان اور بچے بھی جھوم اٹھتے تھے۔

شیخ ایاز کو سندھی شاعری میں وہی مقام حاصل ہے جو اردو میں فیض احمد فیض اور حبیب جالب کو حاصل ہے جس کی نظموں اور گیتوں سے لوگوں کے دلوں میں سامراجیت کے خلاف آگ کے شعلے بھڑک جاتے تھے۔ ان کی ایک نظم سندھڑی تے سر کیر نہ ڈیندو سہندو کیر معیار وہ یار پر تو لوگ شمع پر پروانوں کی طرح اپنی جان نثار کرنے پر تیار ہو جاتے تھے ان کی کاٹدار تحریروں اور شاعری کی بناں پر ان کی دو کتابوں پر حکومت نے پابندی عائد کی اور بحق سرکار ضبط کر لئے تھے۔

ایاز کو جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں وہ سندھ دھرتی سندھی قوم اور شاہ لطیف کے پکّے عاشق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہ وصیّت کر رکھی تھی کہ ان کی موت کے بعد ان کی میّت کو شاہ لطیف رح کے قریب دفن کیا جائے ان کی وصیت پر عمل کیا گیا۔ ایاز کی بنگال کے شاعر رابندر ناتھ ٹیگور اور سندھی مزاحمتی ادیب ابراہیم جویو سے گہری دوستی تھی۔

شیخ ایاز کی اردو شاعری سے چند اشعار قارئین کی نذر

میری قیمت پوچھ رہے ہو
میرے گیت خریدو گے تم

مری روح کی راگنی میں رہے ہو
پرانی سی لئے ہے پرانے سے نغمے

پرانی سی مے ہے پرانے سے شیشے
جنہیں میں چرا رہا ہوں ساقیانِ ازل سے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).