عورت کے خلاف لبرلز کی سازش کا جواب الجواب


ایک موضوع پر بار بار بات کرنا بہت بورنگ ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر عاکف خان صاحب نے میرے بلاگ “عورت کے خلاف لبرلز کی سازش ” پر بے رحمانہ تنقید کر دی گو کہ دوسری کئی جگہوں پر تو برا بھلا بھی کہا۔ ایک تو میں ان کا شکر گذار ہوں کہ تحریر کے ہی بخیے ادھیڑے میری تحلیل نفسی شروع نہیں کر دی کیونکہ اج کل یہ مرض بھی بہت عام ہے کہ لکھنے والے کا دروازہ توڑ کر پہلے اس ناہنجار کی محرومیوں کو کھنگالا جائے اور ان محرومیوں کی روشنی میں تحریر کو پرکھا جائے۔

دوسری بات یہ کہ میں ڈاکٹر صاحب کی تنقید پر حیران بھی ہوں کہ میرے اچھے خاصے نقطہ نظر کو آسمان سے اٹھا کر نیچے پھینک دیا یعنی جو تنقید جناب نے کی اس میں حوالہ میرے بلاگ کا ضرور تھا لیکن نکات تو پتہ نہیں کہاں سے اٹھا لائے۔ حقوق نسواں، خواتین کی تحریکیں، جنسی پابندیاں وغیرہ میری تحریر کا موضوع ہی نہیں تھے۔

آپ فرماتے ہیں کہ میں عورت کو جنس تک محدود کر دینا چاہتا ہوں حالانکہ عورت تو ایسے ایسے کمال دکھا سکتی ہے کہ مرد دانتوں میں انگلیاں داب لیں گے۔ جناب میں نے تو ایک خاص لبرل لابی کی طرف سے عورت کے جنسی استحصال کی بات کی ہے اور ہم جنسیت کا جواز بھی وہی لبرل لابی ڈھونڈ رہی ہے۔ میں نے تو یہ سوال اٹھایا تھا کہ ہم جنسیت بھی ایک لحاظ سے عورت ہی کا استحصال ہے۔ وہ بے چارہ مرد ڈھونڈے گی اور مرد آگے مرد ڈھونڈیں گے۔ آپ نے بہت اچھا کہا کہ معاشرے کا چند فی صد ہیں ہم جنس پرست اور ہم کیوں گھبرانے لگے ان سے۔

بالکل درست کہا آپ نے لیکن جناب یہی بات میں کہہ رہا ہوں کہ اس غیر فطری رویے کا جواز مہیا کر کے دوام نہ بخشیں۔ کل ہی ہم سب پر عورت کی عورت سے شادی کا قصہ سنا ہے۔ یہ تماشا لگا تو ہاتھ بے چاری عورت کے ساتھ ہو جائے گا۔ مغرب میں جو عورت کتا یا عورت ڈھونڈ رہی ہوتی ہے وہ مرد سے بیزار ہو چکی ہوتی ہے اور اس کی تفصیل میں مجھے نہ جانے دیجیے کہ کیوں بیزار ہو چکی ہوتی ہے۔ وکٹورین عورت بیزار کیوں نہیں ہو گئی تھی۔ اب یہ نہ کہہ دیجیے گا کہ وکٹورین عورت تو ہم جنس پرست آسکر وائلڈ کے ساتھ بھی نباہ کر گئی تھی۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔

خود ہی جناب نے سوال دہرایا کہ دنیا میں خاتون مزاح نگار کیوں نہیں آئی اور خود ہی نہایت سنجیدہ بلکہ برگزیدہ ہستیوں کے حوالے دے ڈالے جن میں کوئی مزاح نگار نہیں تھی اور شاید کوئی فلسفی بھی نہیں۔ جس شاعرہ کا حوالہ دیا وہ ہماری فریم آف ریفرنس میں نہیں۔ اگر ان کا کوئی بڑا شعر پیش کرتے تو اچھا ہوتا۔

عورتوں کی تحریکیں بھی پتہ نہیں کہاں چل رہی ہیں لیکن بہر حال اگر آپ کہہ رہے ہیں تو کہیں چل رہی ہوں گی۔ موم بتی مافیا یا تمام دوسرے القابات جن سے آپ عورتوں کو نواز رہے ہیں انتہا پسند ملا استعمال کرتے ہیں لیکن میرے مضمون سے اپ کو یہ شائبہ کیسے ہوا، کچھ سمجھ نہیں آیا۔

میرے مضمون کو دراصل ڈاکٹر صاحب بہت سے دوسرے حضرات کی طرح جو جذباتی طور پر یا کسی ردعمل کے نتیجے میں لبرل یا مارکسسٹ بنے ہوتے ہیں سمجھ ہی نہیں سکے اور یہی وجہ ہے کہ اب مجھے اس مضمون کو سمجھانے کے لیے یہ سب لکھنا پڑ رہا ہے ورنہ ارادہ کچھ اور لکھنے کا تھا۔

وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا

وہ بات انہیں بہت ناگوار گزری ہے

سادہ بات یہ ہے کہ لبرلز دراصل عورت کی جنسی تسکین، اس مرد سے ہم بستری جس کے ساتھ دل چاہے، عورت کا مرد کے ہاتھوں استحصال اور اس صدیوں کے استحصال میں عورت کی تخلیقی قوتوں کا کمزور پڑنے کا رونا بہت روتے ہیں۔ میرا کہنا یہ تھا کہ عورت کو آپ جنسی استحصال اور پسند کے مرد ملنے یا نہ ملنے کے چکر میں ڈال دیتے ہیں جب کہ اصل استحصال تو یہ ہے کہ کسی بھی وجہ سے عورت اپنے تشخص کا بحیثیت عورت اظہار نہیں کر پا رہی مثلآ یہ کہ اس ( بے چاری) نے اپنے کھیل تک نہیں بنائے، مزاح تک نہیں لکھ سکی، فلسفہ میں نام پیدا نہیں کر سکی وغیرہ۔

میں تو عورت کو لبرلز (مذہبی انتہا پسند تو خیر اسے ویسے ہی پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں لہذا ان کا تو ذکر ہی کیا ) کے چنگل سے آزاد کروانا چاہتا ہوں۔ آپ بھی اگر عورت کے ہمدرد ہیں تو یہ تاویلیں گھڑنا چھوڑ دیں کہ عورت کیا نہیں کر سکتی، عورت تو تحریکیں چلا رہی ہے، عورت تو ماں بھی ہے اور بیٹی بھی، عورت تو جنم دیتی ہے اور جو مرد کو جنم دے سکتی ہے وہ مرد کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتی۔ یہ سب ہوائی نعرے ہیں جو اوسط درجے کے لبرلز نے خود کو رجعت پسندوں سے ممتاز کرنے کے لیے گھڑے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ میں عورت کو فلسفی، تھیورسٹ بنانا چاہتا ہوں۔ میں اسے ایسی شاعرہ بنانا چاہتا ہوں جو انسان کے ابدی مسائل  پر بات کرے، جو سڑکوں پر موم بتیاں اور اپنے علم و ہنر سے دلوں کے خرابے کرے روشن۔

میں نام نہاد دانشوروں کی طرح انہیں محفلوں کی زینت بنانا نہیں چاہتا بلکہ انہیں اتنا باکمال بنانا چاہتا ہوں کہ وہ مردوں کے معاشرے پر راج کرے۔ میرے مضمون کے آخر میں تاریخ کا ایک حوالہ ہے اسے ضرور پڑھیے۔ لبرلز عورت کو وہاں دھکیل رہے ہیں اور میں نے ان لبرلز کی تاریخ بھی بتائی ہے، ان کا مقصد بھی۔ یہ بھی کہا کہ ایک فیس بکی دانشور کے خیالات سن کر میں نے عورت کے تاریخی کردار و کوتاہیوں پر بات کی ہے۔ عورت عورت چیخنے سے کیا ہو گا۔ کچھ بھی نہیں۔ چار لونڈے لپاٹے مل کر موم بتیاں جلا لیں گے یا بجھا لیں گے اور شاید عورت اس میں زیادہ جسمانی و جذباتی لذت بھی محسوس کرے لیکن اسے گرا تو آسمان سے بستر پر پی لیا نا۔

آپ نے خود ہی فرمایا کہ مرد نے اس کا استحصال کیا ہے اور اس کی عمومی نفسیات بھی ایسے ہی قالب میں ڈھلی ہے کہ وہ پورے تخلیقی وفور کا اظہار نہیں کر پاتی۔ بجا فرمایا آپ نے۔ بس اسی ظلم سے عورت کو نجات دلوایے کیونکہ آزادی کے نام پر ایک بار پھر وہ اسی عتاب کا شکار ہو رہی ہے۔

مجھے نہیں پتہ کس نے کونڈمز سے زیادہ لطف اٹھایا لیکن میں یہ جانتا ہوں لطف اٹھانے کے بعد مرد اپنے کام میں جت گیا اور عورت یا تو نیا مرد ڈھونڈنے پر لگ گئی یا کسی مرد کا دیا ہوا تحفہ سنبھالنے لگی۔ خدارا یہ مت سوچ لیجیے گا کہ میں شاید بچے پیدا کرنے کے خلاف ہوں۔ میں نے دراصل عورت کے سماجی رویے کی بات ہی نہیں کی تھی بلکہ علمی اور ادبی مقام کی بات کی تھی جو اسے ڈھونڈنا ہے اور ہاں وہ یہ مقام ابھی تک نہیں ڈھونڈ سکی۔

میں مذہب کو بیچ میں لانا نہیں چاہتا تھا لیکن آپ نے حضرت رابعہ بصری کی مثال دی تو حضور پیغمبری تو نہیں ملی عورت کو ( یہ مثال صرف ایک دلیل کو رد کرنے کے لیے تھی۔ اس پر مزید بحث میں نہی چاہتا )۔ آپ دوبارہ میرا مضمون پڑھیے اور پھر اپنا پڑھیے اور ایمانداری سے سوچیں کہ آیا آپ نے درست اعتراضات اٹھائے تھے یا نہیں۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).