بلاول بھٹو کی تقریر، مخدوم بلاول کی للکار


بلاول بھٹو کی محترمہ بے نظیر بھٹو کی گیارہویں برسی پر کی جانے والی تقریر کے یوں تو کئی پہلو تھے، جن کی ہر حوالے سے تشریح کی جا سکتی ہے، مگر ایک پہلو جو بہت حلقوں میں موضوعِ بحث بنا، وہ تھا ایک نظم کا قافیہ۔  ’’وہ باغی تھی مین باغی ہوں‘‘۔ اس دور کے رسم رواجوں سے یہ نوجوان بغاوت کرنے چل نکلا، جس کی پشت پہ شہیدوں کی قبریں اور ان کا نظریہ ہے۔

سندھ میں اکثر و بیش تر بغاوت کے کرداروں کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہ منصور حلاج ہوں، شہید شاہ عنایت ہوں یا مخدوم بلاول اور شہید ذوالفقار علی بھٹو۔ بلاول بھٹو کی تقریر کے وقت سماں سوگ وار تھا۔ ڈھلتی سرد شام میں خاموش بیٹھے، ایک جیالے نے مجھے سندھی میں کہا، یہ بلاول بھٹو کے آواز میں مخدوم بلاول بول رہا ہے اور بلاول بھٹو کا اگلا جملہ یہ تھا، کہ ’’میں باغی ہوں، میں باغی ہوں‘‘۔

شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر عموماََ ماحول سوگ وار رہتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شخصیت کی سحر انگیزی اس قدر تھی کی گیارہ سال بعد بھی لوگ ان کے مسکراتی ہوئی تصاویر اور وڈیوز کو دیکھ کر بے ساختہ اشک بار تھے۔ بلاول بھٹو میں اک جھلک بے نظیر کی دکھائی دیتی ہے۔ وہی جوش وہی ولولہ اور وہی بغاوت جو بے نظیر بھٹو نے کی، اس ملک میں دائمی آمریت کے خلاف۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے کی جد و جہد۔ چھوٹے صوبوں کی آواز۔ مرکز کی اجارہ داری کا خاتمہ۔ ملک کو صدارتی نظام سے بچانا۔ پانی کی انصاف پر مبنی ترسیل۔ این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ بڑھانا۔ جمہوری قو توں کی مضبوطی۔ یہ وہ نعرے ہیں، جن کو پیپلز پارٹی نے حقیقیت میں تبدیل کیا۔

بلاول بھٹو کی تقریر ایک طرح سے ’’اینٹی اسٹبلشمنٹ‘‘ تقریر تھی، جو کہ ان حالات میں خود بلاول بھٹو کی سیاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے؛ مگر بلاول بھٹو نے اس کی پروا کیے بغیر بلوچ مسنگ پرسنز اور پشتون تحفظ موومنٹ کی حمایت میں بول ڈالا۔ یہ وہ موضوعات ہیں، جس پہ پاکستان میں تمام کم لوگ بات کرتے ہیں۔ ایک طرح سے بلاول بھٹو نے پاکستان اور ریاست کے تضادات، اداروں کا بے جا عمل دخل اور نئی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو کہ پیپلز پارٹی کے جلسوں میں نئی بات نہیں۔

جب بلاول بھٹو نئی حکومت کو کٹھ پتلی کہتا ہے اور وزیر اعظم کو سلیکٹڈ وزیر اعظم بولتا ہے، تو اس کے پیچھے ایک سیاسی منطق ہے۔ وہ منطق یہ ہے کہ ایک طرح سے پی ٹی آئی کو انتخابات سے پہلے ایک گراونڈ بنا کر دیا گیا اور باقی پارٹیز کی لیڈر شپ یا جیل میں تھی یا کورٹ کچہریوں کی حاضری میں اور غیبی قوتوں کے بدولت عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔ بات اس حد تک نہ رکی اب مسلم لیگ کی ساری لیڈرشپ جیلوں میں ہے اور اب پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو بھی کیسز کا سامنا ہے۔

سوال یہ ہے کیا اس ملک کی اسٹبلشمنٹ دو بڑی پارٹیز کی لیڈرشپ کو جیل میں بھیج کر عمران خان کو واک اوور دینا چاہتی ہے؟ کیا پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ختم کر کے لوٹوں پر مشتمل نئی حکومت بنائی جائے اور یہاں سندھ میں بھی پی ٹی آئی کو کھلا میدان دیا جائے؟ سب سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر سندھ میں پائیدار حکومت کیسے بن سکتی ہے؟ اور پیپلز پارٹی جس کو سندھ کے اکثریتی عوام ووٹ دیتے رہے ہیں، کیا اس کو ختم کرنا اس وفاق پاکستان کے لیے مفید ثابت ہو گا، یا نہیں؟ یہ غلطی تو ہم مشرقی پاکستان میں کر چکے اور اس کا ہم نے خمیازہ بھگتا۔

ریاست پاکستان میں سیاسی نظام ہمیشہ سے کم زور رہا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کبھی فوجی آمریت تو کبھی عدلیہ کی فیصلوں کی بدولت حکومتیں گرتی اور بنتی رہیں، تو کبھی منتخب وزرائے عظم ماردیے جاتے یا جیلوں میں ڈال دیے جاتے رہے۔ بلاول بھٹو نے بجا کہا کہ تم مجھ سے سودے بازی نہیں کر سکتے، میں جمہوریت کا سودا نہیں کر سکتا۔

بلاول بھٹو کی محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پہ کی ہوئی تقریر اس ملک میں نئے بیانیے کی ابتدا ہے۔ ایک تیس سالہ خوب رُو نوجوان نے جو بغاوت کا علم اٹھایا ہے، یہ کس حد تک فتح یاب ہوتا ہے، یہ تو تاریخ بتائے گی، مگر کم از کم اس ملک میں کئی سال بعد ایک گرجتی آواز میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سامنے تو آیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).