یہ پورس کون تھا؟


باہر بہت ہی گرمی تھی۔ پر جیسے ہی ہم سرنگ میں داخل ہوئے تو ہلکی سی ٹھنڈک کا احساس ہونے لگا۔ ہمارے گروپ میں صرف ایک لڑکے کو چھوڑ کر باقی سب ہی لڑکیاں عورتیں اور بچے تھے۔ ہم سب لوگ فرمانبردار ی سے گائیڈ کے پیچھے پیچھے سرکتے ہوئے چل رہے تھے۔

ہمارا گائیڈ لمبا چوڑا تھا ساتھ ہی مونچھیں بھی صحت مند تھیں۔ تھوڑی دیر میں ہی اندازہ ہوگیا کہ ہمارے گائیڈ کی طبیعت بالکل ہی اڈولف ہٹلر جیسی ہے۔ وہ رعب سے کہتا میرے پیچھے پیچھے آؤ، کوئی بھی ادہر اُ دھر نہ ہو۔ ہش آپس میں نہ بولو۔ جومیں کہہ رہاہوں غور سے سنو۔ ایسے ہی ڈانٹتے ڈپتے ہمیں لئے جارہا تھا۔

بعد میں پتہ لگا اس علاقے کے اکثر لوگ پاکستانی فوج میں ہی ہوتے ہیں۔ ریٹائر ہونے کے بعد کچھ اور کرنے لگتے ہیں۔ وہ دیکھو سرخ نمک اس نے ہمیں اشارہ کرکے بتایا۔ وہ تو ہم کان میں داخل ہوتے ہی دیکھ رہے تھے۔ ایک کہانی چل رہی تھی۔ سکندر اعظم اور پورس کی۔ وہ کہانی اس طرح بتارہا تھا جیسے وہ خود بھی اس وقت وہاں موجود تھا۔ ایک لڑکی ہنسی۔ لگتا ہے جنگ کا نقارہ بھی انہوں نے ہی بجایا تھا۔

محمود غزنوی اور اس کا باپ۔ وہاں کیا دیکھ رہے ہو۔ اس نے غصے سے گھورا۔ سات سالہ بچے نے جب پیچھے مڑکر دیکھا توپکڑ کر اسے سامنے نمک دیکھنے کے لئے سیدھا کیا۔ اسی دوران ہی ہمارے گروپ کی پیلے جوڑے والی لڑکی خاموشی سے پیچھے سے نکل گئی۔ وہ تھوڑی دیر میں ہی چپس اور جوس لئے نمودار ہوئی۔ یہ پورس کون تھا؟ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔

اف یہ اتنی لمبی کہانی تم نے نہیں سنی؟ میں توجہ سے تاریخی حالات واقعات انہماک سے سنتی جارہی تھی۔ سرنگ میں تو اتنا اندھیرا کیوں ہے؟ میں نے گائیڈ سے پوچھا کہ اسے ہی سرنگ کے بارے میں سب کچھ معلوم تھا۔ گائیڈ نے مجھے غور سے دیکھا۔ سرنگ سے تو اندھیرا تو ہوتا ہی پر یہ تم یہاں دھوپ والا چشمہ لگائے کیوں پھر رہی ہو؟

اوھ واقعی میں دھوپ والا چشمہ لگائے بھول ہی گئی تھی اور تقریباً اندھوں کی طرح چل رہی تھی۔ غلطی کا احساس ہوتے ہی چشمہ اوپر کرلیا تو پتہ چلا اتنا بھی اندھیرا نہیں ہے۔ نمک کی کان میں نمک سے ہی مینار پاکستان بنایا گیا تھا۔ جہاں ہم نے فوٹو کھنچوائے مینار پاکستان کو رنگین روشنیوں سے سجایا گیا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ ماحول جیسے خوابناک ساہورہا تھا۔ جی جناب یہاں کھیوڑہ کے نمک کان کی بات کررہی ہوں۔

اسلام آباد سے 200 کلو میٹر دور ضلع جہلم کے تعلقہ پنڈ دادن کے کھیوڑہ کے مقام پر یہ مزے والا ماحول بن رہا تھا۔ یہاں صدیوں سے نمک نکالا جارہا ہے۔ اور مزید کچھ اور صدیوں تک یہ نمک نکلتا رہے گا۔ پنجاب کے اس حصے میں گرمیاں بھی بہت پڑتی ہیں تو سردی بھی کڑاکے کی ہوتی ہے۔

کھیوڑہ میں پاکستان کے نمک کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ دنیا میں دوسرے نمبر پر کھیوڑہ کے نمک کان کو بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں ٹنوں کے حساب سے رنگ بہ رنگ نمک نکالا جاتا ہے۔ پر یہاں سیاحوں کے لئے بھی انجوائے کرنے کا بندوبست ہے یعنی مومل کا کاک محل سا بنا ہے جس کو دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔

دنیا کا عظیم فاتح سکندر اعظم دنیا فتح کرتا ہوا جب یہاں پہنچا تھا تو فوج کے بجائے ان کے گھوڑوں کو نمک کی موجودگی کا پتا لگا تھا۔ گھوڑے چٹانوں کو چاٹ رہے تھے تو فوجی حیران ہوئے پر جلد ہی ان کو معلوم ہوا کہ اصل میں یہ نمک چاٹے جارہے ہیں۔ ٹیوی پر ڈاکیو مینٹری دیکھنے کے بعد ہی ہم نے کھیوڑہ کی نمک کا دیکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ گائیڈ بتارہا تھا کہ یہاں ہر سال 25000 سیاح گھومنے آتے ہیں۔

ایک خوفناک راستے سے ہماری وین جب یہاں آرہی تھی تو ڈرائیور نے کچھ پہاڑ دکھائے جو ملتانی مٹی کے تھے۔ ملتانی مٹی کو گاؤں کی عورتیں بالوں کو دھونے کے لئے استعمال کرتی ہیں جس سے بال گھنے اور لمبے ہوتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ یہاں ملتان تو کہاں اس کی مٹی پہاڑ کی شکل میں کھڑی ہوئی تھی۔ ہم نے گاڑی رکوائی اور ملتانی مٹی کو ہاتھ لگا کے سرور حاصل کیا۔ ہا ہا۔

مجھے وہ زمانہ یاد آگیا جب چھٹی والے دن اماں میرے سر میں ملتانی مٹی پانی میں بھگو کے ڈالا کرتیں اور لکڑی کی کنگی سے میری جوئیں لیکھیں نکالتیں۔ ہزاروں کی تعداد میں جوئیں نکالے جانے کے بعد بھی اگلی چھٹی تک اس سے زیادہ ہوچکی ہوتیں۔ اماں یہ ظالمانہ کارروائی سالوں تک جاری رکھے رہیں جب تک ہم خود اپنی جوئیں نکالنے کے قابل نہ ہوئے۔

جس سال ہم نے یہ سفر کیا تھا تب 20 بستروں کا ہسپتال بھی یہاں موجود تھا جہاں دمہ کے مریضوں کا علاج کیا جاتا تھا۔ پر اب تازہ اطلاع کے مطابق یہ ہسپتال بند کردیا گیا تھا۔ سرنگ میں گھومتے ہوئے بہت مزہ ایا۔ یہاں کراچی کے سمندر سے نکلی ہوئی سپیوں کے زیور بھی بک رہے تھے جو ظاہر ہے سندھ کے لوگوں کے لئے خاص چیز نہیں تھی پر نمک سے بنے ہوئے شو پیس ٹیبل لیمپ وغیرہ کشش کا باعث تھے جو اکثر لوگوں نے تحفے خریدے۔

اس کے علاوہ کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹال لگے تھے۔ ہر بڑا کام یہاں انگریز کرکے گئے ہیں۔ کھیوڑہ کی سرنگ بھی ان ہی لوگوں کا کمال ہے۔ اب تو انگریز ہے ہی نہیں سوچ میں پڑگئی ہوں کہ تھر کے کوئلے کی کان میں یہ سارا کچھ جنگل میں منگل کون کرے گا۔

کیا پاکستان منرل کارپوریش نمک کی کان کو ایسا سیا حی مرکز تھر میں بھی بنا سکتی ہے۔ یا نہیں تھر میں ہزاروں لوگوں کو روز گار تو صرف اسٹال لگاکے بھی مل سکتا ہے۔ دنیاکے کئی ممالک تو صرف ساحت سے بھی اتنا کمارہے ہیں کہ وہاں کے عوام نے لوڈ شیڈنگ کانام بھی نہیں سنا ہوتا۔

پاکستان تو پورا ہی فطری حسن سے بھرا ہوا ہے پر وہ طاقتور ہاتھ جو یہاں کے عوام کی تقدیر بدل سکتے ہیں وہ ہمارے گروپ کی پیلے کپڑوں والی لڑکی کی طرح کہانی ادھوری چھوڑ کے پھر پوچھتے ہیں یہ پورس کون تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).