’’اسپتال روڈ کے فوٹو گرافر اور قطب الدین ایبک کا مزار‘‘



ہم میو ہسپتال سے باہر آ کر اسپتال روڈ پر چلتے ایبک روڈ کی جانب رواں ہو گئے جہاں ہم نے قطب الدین ایبک سے ملنا تھا‘ ہو سکتا ہے وہ چوگان کھیلتا ابھی تک گھوڑے سے نہ گرا ہو۔ ایک روایت ہے کہ اس نے کسی خاتون سے بد سلوکی کی تھی اور یہ اس کی بد دعا تھی جس کے نتیجے میں وہ پولو کھیلتا گھوڑے سے گر کر مر گیا۔ مجھے اس روایت کو تسلیم کرنے میں کچھ تامل ہے۔ اگر کوئی خاتون بد سلوکی کی وجہ سے کسی مرد کو بد دعا دے اور وہ فوت ہو جائے تو اس کلیے کے مطابق پاکستان کے مردوں کی اکثریت کو گھوڑے سے گر کر مر جانا چاہیے۔ چلیے گھوڑے سے نہ سہی سائیکل‘ موٹر سائیکل یا ہوائی جہاز سے گر کر مر جانا چاہیے اور اگر وہ نہیں مرے اور وہ نہیں مرے تو یقینا یہ روایت درست تسلیم نہیں کی جا سکتی۔

قطب الدین ایبک اگر گھوڑے سے گر کر مر گئے تو موت کا ذائقہ ان کے لئے لکھا جا چکا تھا۔ خوامخواہ ان زمانوں کی کسی آزادی نسواں کی تحریک نے قطب الدین ایبک کی موت کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ میرے بچپن کے زمانوں میں اسپتال روڈ کی میو اسپتال والی دیوار ایبک روڈ تک صاف ستھری چلی جاتی تھی‘ تب اس دیوار کے ساتھ مختلف فوٹو گرافر حضرات فروکش ہوا کرتے تھے۔ دیوار پر فوٹو کے پس منظر کے لئے شالیمار باغ اور تاج محل کے تصویری پردے آویزاں ہوتے تھے۔ علاوہ ازیں ایک نقلی پستول کی سہولت بھی شوقین حضرات کے لئے میسر تھی۔ آپ پردے کے آگے ایک نہائت سنجیدہ حالت میں زانوئوں پر ہاتھ رکھے بوتھی بنائے اس سیاہ شے کو گھورتے تھے جس کے اندر فوٹو گرافر اپنا پورا سر گھما کر جانے کیا کیا کرتا تھا۔

اکثر اوقات گاہک تصویر لینے سے انکاری ہو جاتا تھا کہ یہ تو میری نہیں ہے۔ جانے کس چغد کی ہے۔ اسے بڑی مشکل سے یقین دلایا جاتا کہ دیکھ اس کے بھی دو کان ہیں‘ تمھارے بھی ہیں‘ اس کی بھی دو آنکھیں ہیں وغیرہ لیکن جب گاہک پوچھتا کہ یہ مونچھیں کہاں سے آ گئیں تو فوٹو گرافر کہتا کہ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں اور پھر فوٹو پر ایک برش پھیر کر اے کسی محلول میں ڈبو کر مونچھیں غائب کر دیتا ہے اس نا چیز کو کم از کم دو بار اسپتال روڈ کے ان مایہ ناز فوٹو گرافروں کا ماڈل ہونے کا شرف حاصل ہو چکا ہے۔ بعدازاں اسپتال کی پوری تقریباً آدھا کلو میٹر طویل دیوار تجاوزات کا شکار ہو کر ایک کلاتھ مارکیٹ میں بدل گئی۔

یہاں مجھے ایک نہایت محیر العقول واقعہ کا تذکرہ بہر صورت کرنا ہے۔ میو اسپتال کی دیوار کے عین سامنے جہاں ایک زمانہ میں نثار آرٹ پریس والے میرے دوست شیخ نوازش علی کا ایک چھوٹا سا چھاپا خانہ ’’اے ایم زیڈ پریس‘‘ نام کا ہوا کرتا تھا۔ اس کے برابر میں ایک قدیم محراب تھی جو اب بھی موجود ہے۔ یہ لاہور کے مشہور لیڈیز ہاسپٹل، ’’لیڈی ولنگڈن ہاسپیٹل‘‘ کا ایک بغلی راستہ تھا۔ میں جب کبھی ادھر سے گزرا تو یہ محراب مجھے آج سے 74 برس یعنی تقریباً پون صدی پیش تر کے ایک دھندلے منظر کے بجھتے نقوش دکھانے لگتی۔ اس محراب میں ایک اسٹریچر ہے جس پر سفید چادر سے ڈھکی ایک لاش پڑی ہے لیکن اس کا چہرہ عیاں ہو رہا ہے۔ ایک نوجوان سولہ سترہ برس کی بہت گوری رنگت والی لڑکی جس کی نیم واآنکھوں میں نیلاہٹ بھری ہوئی ہے۔ اسٹریچر کے ساتھ میرے نوجوان ابا جی اپنے آنسو پونچھ رہے ہیں۔ وہ ان کی سب سے چھوٹی بہن ہے، جو لیڈی ولنگڈن ہاسپیٹل میں بچے کی پیدایش کے دوران مر گئی اور میں ابا جی کی دراز قامتی کے ساتھ سہما کھڑا ہوں اور نہیں جانتا کہ وہ رو کیوں رہے ہیں۔

میں تب چار برس کا بھی نہ تھا۔ مجھے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا تھا۔ صرف یہ یاد ہے کہ اس لڑکی کی جو کہ میری پھوپھی تھی آنکھیں نیلے رنگ کی تھیں۔ آج بھی جب کہ میں شاید اسی برس کا ہو جاوں۔ آج بھی جب اس محراب کو دیکھا تو وہ دھندلی تصویر میری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہونے لگی۔ اسٹریچر پر پڑی ایک لاش ابا جی آنسو پوچھتے ہوئے اور میں حیرت زدہ! میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ صرف وہ ایک امیج ہی کیسے مجھے آج تک ہانٹ کرتا ہے، جب کہ مجھے ان زمانوں کا اور کچھ یاد نہیں۔ سال ہا سال یاد داشت کی تختی سے مٹ گئے تو پھر یہ ایک امیج کیسے یاد رہ گیا۔ کیا کوئی اس الجھن کو سلجھا سکتا ہے؟

ایبک روڈ کے ساتھ بھی تو کچھ وابستگی سی تھی۔ یہاں ’’نقوش‘‘ کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ یہاں کچھ دیر ٹھہرتا۔ شیلفوں میں سجی کتابوں کو حسرت سے دیکھتا کہ میں ان سب کو خریدنا چاہتا تھا۔ محمد طفیل صاحب ان زمانوں کے رواج کے مطابق دکان کے داخلہ ہی پر کرسی پر بیٹھے کچھ نہ کچھ لکھ رہے ہوتے۔ وہ مجھ سے باتیں کرتے اور مسلسل مسکراتے۔ یہاں احمد ندیم قاسمی بھی بیٹھا کرتے تھے، جب وہ ’’نقوش‘‘ کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ قریب ہی بشیر منذر کا پریس شاید ’المینار‘ تھا، جہاں اکثر مرزا ادیب دکھائی دے جاتے۔ مجھے وہ پہلا دن یاد ہے جب اباجی مجھے ایبک روڈ کے بائیں جانب ایک تنگ گلی کے اندر لے گئے۔ مکانوں کی بھیڑ تھی اور گندی نالیاں تھیں۔ بائیں جانب ایک قدرے بلند سطح پر ایک بوسیدہ غلاف میں ڈھکا ان ڈھکا ایک پرانا مزار تھا۔ ارد گرد دھول کی تہہ فرش چھپائے ہوئے تھی۔ تین جانب ملحق مکانوں کی دیواریں‘ اوپر ایک سہ منزلہ سکونت کی چھت اور چھت میں سے بوند بوند گندا پانی ٹپ ٹپ قبر پر گر رہا ہے۔ اس لئے غلاف قدرے گیلا لگ رہا تھا۔ یہ ہندوستان کے بادشاہ قطب الدین ایبک کی قبر تھی۔

مجھے ایبک کے مزار کی تعمیر نو کے بارے میں تفصیل کا علم نہیں کہ کون سے دور حکومت میں وہ کون سا ایسا شخص تھا، جو ایبک کے مدفن کی زبوں حالی پر رنجیدہ ہوا اور اس کی کاوشوں سے اس کے شایان شان یہ متاثر کرنے والی عمارت تعمیر کی گئی۔ جس نے اپنی آنکھوں سے قطب مینار کی پر شکوہ عظمت کا نظارہ نہیں کیا، وہ جان ہی نہیں سکتا کہ اس آسمان سے باتیں کرتے مینار کے فن تعمیر میں کیسی ان ہونی کشش ہے۔ میں قطب مینار کو حسن اور شان داری میں کسی طور تاج محل سے کم تر نہیں سمجھتا۔ جیسے قطب مینار کے گھیرے کے گرد آیات قرآنی کو پتھروں میں تراشا گیا ہے اور ان کی خطاطی کے دنیا بھر میں جواب کم ہیں، تو اسی طور ایبک کے مقبرے کی زیبائش بھی پتھروں میں ڈھلی ہوئی ہے۔ خطاطی ہو بہو قطب مینار پر نقش آیات قرآنی کی ہم شکل ہے۔ جیسے ’’مغل اعظم‘‘ کے لئے تان سین کو گاتے دکھانا مقصود ہوا تو کے آصف سے کہا گیا کہ پورے برصغیر میں اگر تان سین کا کوئی ثانی ہو سکتا ہے، تو وہ قصور کے بڑے غلام علی خان ہیں۔ اسی طور جب اس مقبرے پر خطاطی کرنے کے لئے کسی ایسے استاد و خطاط کی تلاش ہوئی جو قطب مینار کے بے مثال خطاط کی ہم سری کر سکے تو صرف ایک ہی نام سامنے آیا اور وہ تھا حافظ یوسف سدیدی صاحب کا۔

حافظ صاحب ’’امروز‘‘ میں صرف شہ سرخی لکھتے تھے اور وہ ہمیشہ ایک شاہ کار ہوا کرتی تھی۔ مجھ ایسے خطاطی کے فن سے واجبی واقفیت رکھنے والے شخص کو بھی اگر سدیدی صاحب کا خط کردہ صرف ایک ’’الف‘‘ یا ایک ’’میم‘‘ کہیں بھی نظر آ جائے تو میں فوراً پہچان جائوں گا کہ یہ سدیدی صاحب کا ہاتھ ہے وہ اس لمحے برصغیر کے سب سے بڑے خطاط مانے جاتے تھے۔ میرا خالہ زاد بھائی کیپٹن پائلٹ ساجد نذیر 1975ء میں جہاز کریش ہونے سے شہید ہو گیا تو میں نے سدیدی صاحب سے درخواست کی وہ اس کی قبر کا کتبہ لکھ دیں انھوں نے فوراً لکھ دیا اور جب میں نے ڈرتے ڈرتے معاوضے کا تذکرہ کیا تو انھوں نے کہا ’’میں شہید کا کتبہ لکھنے کا معاوضہ نہیں لیتا‘‘۔ اگر کبھی ایبک روڈ جانے کا اتفاق ہو تو ایبک کے مقبرے کے در و دیوار پر حافظ یوسف سدیدی کی خطاطی کو ذرا غور سے دیکھیے تو آپ پر کھلے گا کہ اس میں حسن عقیدت اور کمال فن کے کیسے کیسے معجزے نقش ہیں۔ البتہ ایبک کا کتبہ جانے کیوں انگریزی میں تحریر ہے’’منرولیم آف سلطان قطب الدین ایبک‘ وفات لاہور 1215ء اور یہ کتبہ اتنا بھدا ہے کہ ایبک کے لائق نہیں۔

انارکلی بازار کے آخر میں بائیں جانب لاہور کا ایک بہت قدیم کلیسا آج بھی موجود ہے۔ اسے پرتگال کے مشنریوں نے تعمیر کیا اور ان دنوں کسی امریکی عیسائی تنظیم کے زیر انتظام ہے۔ یہ پرتگالی کلیسا یقینا انار کلی بازار کی تعمیر سے بہت پہلے کے زمانوں میں تعمیر کیا گیا۔ جب لوہاری دروازے کے باہر ایک میدان ہوا کرتا تھا۔ نہایت ہی دل کش عمارت ہے اور دیکھنے کے لائق ہے۔ اس کی پیشانی پر ’’فارمن میموریل چیپل‘‘ درج ہے۔ ہم سب صبح کی سیر کے ساتھی عادل‘ ڈاکٹر انیس‘ ڈاکٹر نسیم‘ فرزاد علی‘ فرید احمد اور سرفراز گجر اندرون شہر کی لاہور نوردی کے لئے لوہاری گیٹ کی جانب بڑھ رہے تھے، جب شہابے کھوکھے والے سے ملاقات ہو گئی۔ (جاری)

(بشکریہ روزنامہ 92)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar