لاہور میں صحافیوں کا ٹھکانہ



تیس برس پہلے کا ذکر ہے خبر کی دنیا سے وابستہ ہوئے،بڑوں سے معلوم ہوا کہ یہاں کبھی فارغ اوقات میں بیٹھنے کے لیے مقام ہوتا تھا،جسے پریس کلب کہاجاتاہے،بڑے ناموں کی بڑی اوردلچسپ باتیں بھی اسی سے منسلک تھیں،ریگل کے قریب ایک عمارت میں چند کمرے بندتھے جن کے مرکزی دروازے پر تالہ پڑا تھا،وہاں ایک بار زمانہ طالبعلمی میں تنظیمی حوالے سے کسی جید صحافی سے ملاقات کرچکاتھا۔ 1989 میں وہ عمارت کسی تنازعے کے باعث تالہ بندی شکار ہوچکی تھی۔ خواہش تھی کہ ہم بھی وہاں اب بطور صحافی داخل ہوتے، یہ بھی پوری ہوگئی اور 1990 کے الیکشن سے پہلے اسے کھول دیا گیا جس کے ساتھ ہی ہم بھی رکنیت حاصل کرنے والے خوش قسمت افراد میں شامل ہوگئے۔

پریس کلب میں زیادہ کچھ نہ تھا، دو کمرے تھے ایک میں ٹی وی اور دوسرے میں کھانے کی میزیں لگی ہوتی تھیں۔ ایک طرف کیرم اور کارڈز کھیلنے والوں کے لیے چند ٹیبل لگی تھیں۔ ہم لوگ کھیلتے تو کچھ نہیں تھے ہاں اتنا ضرور تھا کہ سنیئرز کی ہلکی پھلکی اورر معلوماتی ہر قسم کی گفتگو وہاں جانے کیلئے کشش کا باعث بنتی تھیں۔

اچھا وقت آیا، ناصرنقوی اور ہماعلی نے کوشش کی اور لاہورکے صحافیوں کو شہر کے مرکز میں ایک منفرد مقام پریس کلب کیلئے مختص کرادیا گیا، شملہ پہاڑی میں خوبصورت عمارت کی تعمیر کا آغاز ہی دلفریب یادیں دے گیا،1993 کے اختتام پر عمارت مکمل ہوگئی،اس کے روح رواں وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدروائیں تھے لیکن قائم مقام صدر وسیم سجاد نے افتتاح کیا، پہلے زیادہ جگہ اور تفریحی سرگرمیوں کے زیادہ مواقع دیکھ کر سب خوش تھے۔ بزرگوں نے صرف اتنا سبق سکھایا تھا کہ اس کو محض عمارت نہیں سمجھنا بلکہ یہ ایک مستند ادارہ ہے،جس کی حفاظت اور تکریم صحافیوں کی ذمہ داری ہے، یہی ان کی تربیت اور پناہ گاہ کا کام کرے گی۔ سماجی رابطے کا اولین ذریع بھی پریس کلب ہی تھا۔ فون کی سہولت بھی نہیں تھی بس یہاں آگئے اور ملاقاتوں کے دور چلنے لگے، چائے کے ایک کپ کی طلب یا خواہش یہاں کھینچ لاتی۔ محض ایک روپے کا کپ اور دس روپے تک کھانا، اس وقت بھی معمولی بات نہ تھی۔

اس عمارت میں پہلی گورننگ باڈی میں منتخب ہونے کا اعزاز ملا، تو کیفے ٹیریا کو اپنے ہاتھ میں لینے کی تجویز میرے ہی پلے پڑگئی،اور پھر اس ذمہ داری کو نبھانے کیلئے دن رات محنت بھی کی، پریس کلب میں تفریحی اور ادبی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز ہوا، کھیلوں کے مقابلے ہوئے، بچوں اور فیملیز کی تقریبات ہوئیں، ورکشاپس اور تربیت کے پروگرام کرائے گئے۔

کبھی کبھی کچھ مقامات سے عشق ہوجاتا ہے وجہ محض اتنی ہوتی ہے کہ اپنے پیاروں اور چاہنے والوں سے میل ملاپ ہوتا رہے، وہاں جائے بغیر دن اچھا نہیں گزرتا، ایک ٹھرک سی کی کیفیت بن جاتی ہے، پریس کلب بھی ہم لوگوں کی ٹھرک بن گیا، وہ کیبل پر فلم دیکھنا ہو، ٹیرس پر ٹیبل ٹینس کھیلنا ہو، صحن کے بینچوں پر بیٹھ کر چائے کے کپ پر گپ لگانا ہو، سردی، گرمی یا برسات کلب کا پھیرا ضرور لگتا، کچھ ذمہ داریاں سنبھالنے کے چکر میں یہاں کی سیاست بھی کمزوری بن گئی، یہاں جیتے یا ہارے آنا جانا بند نہ ہوا، جیت کر وقت زیادہ گزارنا پڑا،اور معاملات دیکھنے پڑتے۔ سنیئرز کے ساتھ ساتھ سیاست اور سماج کے معززین سے بھی ٹاکرے کا موقع مل جاتا۔

پریس کلب نے تفریح فراہم کرنے کے ساتھ حقوق کی جنگ میں بھی قدم رکھ دیا، یونین کمزور پڑیں تو اس پلیٹ فارم نے جہاں ضرورت پڑی کارکنوں کی آواز بن کر نعرہ بلند کردیا، حتیٰ کہ صحافیوں کی رہائش جیسے اہم مطالبے کو سنجیدگی سے حکومت تک پہنچایا جسے آج حقیقت کی شکل مل چکی ہے۔ اداروں میں برطرفیوں کے خلاف احتجاج ہو یا تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ پریس کلب کی نگاہیں دوڑتی ہیں۔ یہاں کی قیادت اب باضابطہ طور پر ٹریڈ یونین کے فرائض ادا کرتی ہے۔

سال کے بعد الیکشن یہاں کی جمہوری روایت ہے، صرف ان چند دنوں میں گروپنگ دیکھنے میں آتی ہے اور اپنی پسند کے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگنے اور پھر جیت کے بعد دوبارہ ایک دوسرے سے گپ شپ کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔ ایک فرق آگیا ہے اب صحافی زیادہ ہوگئے، نئے آنے والوں کی کچھ تربیت کم ہوئی کچھ جگہ اور وسائل مین بھی کمی آگئی، نتیجے میں مسائل بڑھ گئے۔ لیکن ایسا نہیں کہ یہاں بہت برے حالات آگئے۔ ہر منتخب باڈی نے سنیئرز کی مشاورت سے کچھ نہ کچھ اقدامات اٹھاکر بہتری کے اسباب تلاش کئے۔پریس کلب کو پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک سے وابستہ صحافیوں کو بھی اپنا حصہ بنانا پڑا، لیکن یہ مقام اپنے اندر اتنی وسط پیدا کئے ہے کہ کبھی صحافت سے وابستہ طبقات چاہے وہ کسی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے دروازے کھلے رکھے۔

آج پریس کلب کی موجودہ عمارت میں 26 ویں سالانہ الیکشن کی پولنگ نئے سال کی آمد سے دو روز پہلے جاری ہے، اس دن کا انتظار بھی اکثر محض اس لیے کرتے ہیں، کہ چلو گپ شپ لگائیں گے، ملاقات میں پرانی یادیں اور کئی بھولے بسرے واقعات پھر سے ذھنوں میں تازہ کرنے کا بہانہ ملے گا۔ کچھ ماضی میں ہوئی اچھی بری باتوں اور سرگرمیون کا جائزہ لینے کا بھی مواقع میسر آجائے گا۔ پریس کلب صحافیوں کی آماجگاہ بھی کمیں گاہ بھی ہے،جہاں جاکر ہی کوئی صحافی خود کو مضبوط ،توانا اور متحد تصور کرتاہے۔ ذاتی مصروفیات کے دور میں یہ مقام اس کی تقویت، آسودگی کا باعث بنتا ہے۔ آج پھر ایک بار سب اکٹھے ہوں گے۔ یادرفتگان کے ساتھ آنے والے دنوں میں کسی مشترکہ کارروائی یا سرگرمی کی حکمت عملی کی منصوبہ بندیاں بھی ہوں گی۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar