حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ


ایک طلسم ہوش رُبا ہے کہ جس سے آنکھیں خیرہ ہیں۔ ہر روز نئے نئے انکشافات ہوتے جا رہے ہیں ”پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں“ اس محاورے کی عملی تصویر جناب آصف علی زرداری صاحب جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی انگلی پکڑے اقتدار کے ایوانوں میں نمودار ہوئے، تو اپنی قابلیت سے آتے ہی مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب پا لیا اور اس پر کبھی شرمندہ بھی نہیں ہوئے۔ آنے والے مختلف ادوار میں ان پر مالی بد عنوانیوں کے الزامات لگتے رہے، لیکن ان کو مرد حر، نیلسن منڈیلا، مفاہمت کا بادشاہ اور ایک زرداری سب پر بھاری قرار دے کے کر ان کی عظمت، لیاقت اور قابلیت کے ڈھول پیٹنے والوں کو کہیے بھی تو کیا کہیے۔

بے نظیر بھٹو کے پہلے ادوار حکومت میں وزیر سرمایہ کاری اور بے نظیر بھٹو کی حادثاتی موت کے بعد عہدہ صدارت پر فائز رہنے والے زرداری، اور کسی پر بھاری ثابت ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں، اپنی پارٹی اور ملک پر ضرور بھاری ثابت ہوئے۔

جب اربوں کھربوں روپے کے جعلی اکاونٹس، جائیدادوں، کمیشن اور کک بیکس کی خبریں آئیں تو یہ زیادہ حیرت والی بات نہیں تھی۔ ہاں جب ان کے مبینہ  طور پہ حرام کے پیسوں سے کتوں کے راتب اور صدقے کے بکرے خریدنے کا ذکر آیا تو کچھ لوگ ضرور چونکے ہوں گے، لیکن بہت سوں کا ضمیر، ایمان، اصول سب کچھ پیسا ہی ہوتا ہے، اور ایسا شروع دن سے ہوتا آیا ہے۔

جب مرحوم بے نظیر بھٹو دوسری بار بر سر اقتدار آئیں تو 1993 ء میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کا مزار ان کے شایان شان تعمیر کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے 48 لاکھ کی رقم قومی خزانے سے منظور کروائی گئی۔ اس وقت انتخابات میں تازہ تازہ شکست خوردہ نواز شریف نے جھنگ میں سیدہ عابدہ حسین کے گھر میں ایک جلسے سے خطاب میں کہا، کہ بے نظیر نے ایسا کر کے قومی خزانے کا ضیاع کیا ہے اور وہ اقتدار میں آتے ہی اس مزار کو مسمار کروا دیں گے۔

میں اس جلسے میں موجود تھا۔ اس وقت اور لوگوں کے ساتھ احسن اقبال بھی ان کے ہم راہ تھے۔ بعد میں اسی نواز شریف نے نہ صرف جاتی عمرہ کی سڑکیں، بلکہ اپنے محلات کی چار دیواریاں تک قومی خزانے سے تعمیر کروا لیں۔ اور تیسری بار تو دونوں بھائیوں نے اپنے اپنے گھر تک وزیر اعظم کیمپ آفس اور وزیر اعلیٰ کیمپ آفس قرار دے کر ان کا چائے پانی تک سرکاری خرچ سے چلائے رکھا۔ پچھلے دو سال میں ان سب کی لوٹ کھسوٹ جیسے جیسے سامنے آئی ہے، لگتا ہے اس نیک کام کے علاوہ انھیں اور کوئی کام ہی نہیں تھا۔ سندھ میں او منی گروپ، زرداری گروپ اور ملک ریاض اور وفاق اور پنجاب میں میاں برادران نے جو اندھیر مچائے رکھی اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔

پچھلے تیس سال سے زاید عرصے سے باری باری کسی نہ کسی صورت اقتدار میں رہنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اب با قاعدہ سیاسی مافیاز کی صورت دھار چکی ہیں۔ جن میں باقاعدہ جعلی مغلیہ شہنشاہ عام لوگوں کو جمہوریت کی افیم چٹا چٹا کر مد ہوش کر کے نسل در نسل حکمران رہنے کی منصوبہ بندی رکھتے ہیں۔ اور اس کام میں ان کے چمچے کڑچھے، ابن الوقت سیاست دان، بد عنوان سرکاری افسر اور کچھ قلم فروش صحافی ان کی بھر پور حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

کیوں کہ ایک دوسرے کے تعاون ہی سے ان سب کا دانا پانی چل رہا ہے۔ حرام خوری اور دولت کی ہوس ان کا مذہب بن چکی ہے، جس سے دست بردار ہونے کے لئے وہ کسی طور بھی تیار نہیں۔ ان کی مطلق العنانی میں اگر پہلے کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ پہلے میثاق جمہوریت، جسے میثاق لوٹ مار کہنا زیادہ مناسب ہو گا، اور بعد میں اٹھارہویں ترمیم نے پوری کر دی ہے۔ اس کے بعد سے تو پچھلے دس سال سے یہ دونوں سیاسی راجواڑے خود ہی حکومت اور خود ہی اپوزیشن تھے۔

کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ دس سال اپنے لاؤ لشکروں سمیت خوب کھل کر کھیلے۔ اس عرصے میں ہندوستان اور بنگلا دیش ترقی کے سفر میں ہم سے کوسوں آگے نکل گئے۔ جس دوران لٹیروں کے یہ گینگ اپنے ہی وطن کو لوٹنے، نوچنے اور بھنبھوڑنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ سب ایسے ہی چلتا رہتا، اگر ایک ڈراونے خواب کی طرح عدلیہ ان کے راستے میں نہ آتی۔ اور پھر دوسری خرابی یہ ہوئی کہ عمران خان بر سر اقتدار آ گیا۔ تیسری بد قسمتی یہ کہ سب ادارے ایک پیج پر ہیں اور لٹیروں کی رسی ڈھیلی ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اب ان سب کی چیخیں ساتویں آسمان پر سنائی دے رہی ہیں۔ شاید مافیاوں سے ملک کی جان چھوٹنے والی ہے، اوراس بار لگتا نہیں کہ کوئی مدد کو آئے گا، شاید کھایا پیا سب اگلنا پڑے، اور حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ کا سلسلہ ختم ہو جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).