بلوچستان میں مخلص قیادت کا فقدان


بلوچستان کا ایک عام آدمی، بھلا کیوں غریب نہ ہو، کہ واجبی تعلیم یافتہ بلوچستانیوں کو کبھی اتنی پڑھی لکھی قیادت میسر آتی ہے، کہ جو ٹوئٹر پرعوامی مسائل کا حل دیتی ہے تو کبھی ایسے ان پڑھ لوگ حکمران بنتے ہیں، جو کہ آج بھی ٹوئٹر کو بلاول بھٹو کی ملکیت سمجھتے ہیں۔ تو کبھی ایسے لوگ بھی حکمران بنتے ہیں، جو کہ ملکی میڈیا پر ٹائم ملنے کو موقع غنیمت جان کر عوامی مسائل پر بات کرنے کی بجائے مونچھوں کی بات کرتے ہیں۔

بلوچستان میں جہاں غربت کے حوالے سے دیگر عوامل کارفرما ہیں، وہیں یہاں پر ہمیشہ ایک ذاتی مفادات اور ویژن سے عاری بانجھ سیاسی قیادت سرِ فہرست رہی۔ جس نے ہمیشہ صوبے کے مفادات پر ذاتی و اپنے حلقہ انتخاب کے مفادات کو اہمیت دی۔ ایسے میں اس مفادات پرستی کے عمل نے جہاں بہت ساری مایوسیوں کو جنم دیا، وہیں عام آدمی سیاسی قیادت سے بھی بد ظن ہو گیا۔ کیوں کہ ان کے مستقبل سنوارنے کا حل سیاست دان جو تلاش نہ کر سکا۔

جس کا فائدہ بلوچستانی کی اکثر سیاسی شاطر قیادت نے اٹھایا اور اسلام آباد و عام بلوچستانی کے درمیان جو رابطوں کے فقدان کا خلا موجود تھا، اس بلوچستانی سیاست دان نے مزید ہوا دی، اور سیاست سے بد ظن شخص کو اسلام آباد اور پنجاب رائے عامہ بنانے کے لیے بطور ڈھال استعمال کرنے میں کام یاب ہوا۔ عام آدمی کا بد ظن ہونا بھی بجا تھا کیوں کہ اس کے مسئلے کو اہمیت جو نہیں دی گئی۔ بلوچستان میں صوبائی حکومت نے 2006 میں اکنامک سروے رپورٹ جاری کی جس کی روشنی میں بلوچستان کی اس وقت کی کل آبادی، جو اس وقت 65 لاکھ کے قریب تھی، اس آبادی کے بالغ 17 میں سے صرف ایک شخص باقاعدہ ماہ وار تنخواہ لیتا تھا۔ جب کہ اس کے مقابلے میں صوبہ پنجاب میں 5 میں سے 1 شخص باقاعدہ تنخواہ لیتا تھا۔ رپورٹ ایک آئینہ ثابت ہوئی، جس میں ناقص حکومتی کارکردگی نظر آئی۔ شاید اس وجہ سے 2006 کے بعد وہ معاشی سروے رپورٹ دوبارہ پلاننگ انیڈ ڈویلپمنٹ ڈپمارٹمنٹ بلوچستان نے شایع نہیں کی۔

یہاں سوائے سرکاری سطح پر ملازمت پید اکرنے کے کچھ ایسے اقدامات نہیں اٹھائے گئے، جن سے عام آدمی کے لیے با قاعدہ ذریعہ روزگار پیدا ہوتا۔ سی پیک کے تحت بلوچستان کے ضلع پشین کی تحصیل بوستان اور سابق وزیر اعلی بلوچستان سردارعطاء اللہ مینگل ان کے فرزند سردار اختر مینگل، نواب ثنا اللہ زہری اور نصیر مینگل کے آبائی ضلع خضدار میں انڈسٹریل زون بنانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس پر تا دم تحریر کوئی عملی کام نہیں کیا گیا۔

لیکن یہاں عام بلوچستانی اپنی قیادت سے کچھ سوالات کرتا ہے، کہ سی پیک کہ یہ منصوبے نا سہی، ہماری حکومت ہماری لئے کیا کر رہی ہے؟ کیا ہم بوستان میں انڈسٹریل زون، یا بلوچستان کے تمام اضلاع میں ایک فیکٹری بھی نہیں لگا سکتے، جس سے ہزاروں لوگوں کو روزگار میسر آئے؟ ہر شہر کے سیب انگور و دیگر فروٹ منرل مال مویشی یہاں سے ملک کے دیگر علاقوں میں، اس سے بہتر انداز میں نہیں بھجوائے جا سکتے؟ ہم اپنے لوگوں کے لیے روزگار فراہم نہیں کر سکتے؟ یا ہمارا کام و سیاسی منشور صرف تعمیراتی عمل یعنی اینٹ پر اینٹ لگانا ہے؟ گویا ہماری سیاسی قیادت کی نظر میں صوبے میں کوئی اور مسئلہ ہی نہیں ہے؟ یہاں پر سب کچھ چاہے کاشت کے حوالے سے ہو یا پھر کسی اور حوالے سے ہم کر سکتے ہیں، لیکن ہمیں ایسا کرنے سے کس نے روکا ہے؟

اب ایک چھوٹی سی مثال لیتے ہیں کہ ضلع لسبیلہ میں زنک اور لیڈ یعنی پیتل کے لیے دور دراز تحصیل کنراج میں چینی کمپنی نے ٹھیکا لیا ہے۔ ان کو ہمارے بنجر بلوچستان میں اپنے کھانے کے انتظام کی پڑی تو ایک ایکڑ زمین لی۔ وہاں پر انھوں نے اس زمین پر اپنے چار سو ملازمین کے لیے سبزیاں اگانے کے لیے چین سے ایک شخص بلوچستان بلوایا، جو کہ اس ایکڑ زمین پر کھیتی باڑی کر کے اس کمپنی کے چار سو ملازمین کے لیے کام یابی سے تازہ سبزیاں اگا رہا ہے۔

سبزیاں اس قدر زیادہ ہیں کہ یہاں سے سبزی اپنے کراچی کے دفتر کو بھی بھجواتے ہیں۔ اب تو بات بڑی واضح ہو گئی ہے، کہ زمین نہیں حکومت اور ہماری سوچ بنجر ہے۔ کیوں کہ اس کے ساتھ واقع گاؤں کی تقریباً تمام زمینیں بنجر ہیں۔ وہاں کاشت کاری نہیں۔ ہم کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے لوگوں کو بھی مالی طور مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر ایک شخص ایک ایکڑ زمین پر چار سو سے زائد لوگوں کے لیے سبزیاں اگا سکتا ہے، ایسے صوبے میں زرعی انقلاب کیوں برپا نہیں کیا جا سکتا؟ اس انقلاب میں ہم بلوچستان کو معاشی ترقی پر گام زن کر سکتے ہیں، وہیں ہم ملک میں خوردنی تیل کی مکمل ترسیل بلوچستان سے بھی مکمن بنا سکتے ہیں، جس سے جہاں تیل کی پیداور میں ملک خود کفیل وہیں عام بلوچستانی بھی خوش حال ہو گا۔

پاکستان میں اس وقت خوردنی تیل کی در آمد تقریباً 330 ارب روپے ہے۔ در آمد ختم کرنے کے لیے ہمیں پانچ لاکھ ایکڑ زمین چاہیے، ہمارے پاس بلوچستان میں ٹوٹل تقریباً ایک کروڑ ایکڑ زمین قابل کاشت ہے۔ جب کہ 15 لاکھ ایکڑ ان علاقے میں ہے، جہاں ہم زیتون اگا سکتے ہیں۔ خوردنی تیل کی کمی پوری کرنے کے لیے 5 لاکھ ایکڑ زمین کی ضرورت ہے۔ بلوچستان میں اگر ہم زیتون کے باغات لگاتے ہیں اور زمین داروں کی حکومتی سطح پر سر پرستی کرتے ہیں، تو ہم یہ خوردنی تیل کی ملکی مانگ اپنے ہی صوبے سے پام آئل کے بجائے اعلی کوالٹی کے زیتون سے پوری کر سکتے ہیں۔ غور طلب بات یہ ہے کہ زیتون کی پیداوار انتہائی کم پانی سے ہو جاتی ہے، جو کہ پانی کی کمی کے شکار پاکستان کے لیے موجودہ حالات میں کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔

ہم بلوچستان کے بے آب و گیاہ زمین کو سرسبز اور قابل کاشت کیوں نہیں بنا سکتے؟ اس صوبے کا ایک المیہ یہ بھی ہے، کہ یہاں پر صرف اور صرف ان منصوبوں پر توجہ دی گئی ہے، جس سے وقتی طور پر کچھ لوگوں کو نقد کمیشن ملا۔ پی ایس ڈی پی کا حصہ ہمیشہ وہی منصوبے رہے ہیں، جن میں وقت کی بر سر اقتدار سیاسی قیادت و افسران کی پانچوں انگلیاں گھی میں رہیں۔ جب کہ عام بلوچستانی نان شبینہ کا محتاج رہا۔

ضلع موسیٰ خیل میں محکمہ زراعت بلوچستان نے ایک زیتون کا فارم لگایا تھا، جو کہ اس وقت سالانہ 1000 لیٹر سے زائد تیل پیدا کرتا ہے اور مارکیٹ سے اس فارم ہاوس کے مالک کو سالانہ 20 لاکھ روپیا آمدن ہوتی ہے۔ ہم نے یہی زیتون باغبانہ ضلع خضدار میں لگایا ہوا ہے۔ گزشتہ سال بلوچستان میں وزیر زراعت کا تعلق بھی باغبانہ سے تھا۔ ان کا فرض تھا کہ وہ اپنے حلقہ انتخاب میں اس کو مزید وسعت دینے کے ساتھ دیگر اضلاع میں، یہ طریقہ کاشت متعارف کرواتے۔ لیکن حکومتی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یہ سب کچھ ویران ہو رہا ہے۔ بلوچستان کے شمالی علاقوں کے اضلاع جس میں قلعہ سیف اللہ لورالائی، ژوب، موسیٰ خیل بارکھان ڈیرہ بگٹی، کوہلو، زیارت، پشین وغیرہ زیتون کی پیداوار کے لیے موزوں ترین علاقے ہیں۔ لیکن ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی۔

کچھ عرصہ قبل قبائلی شخصیت نواب زادہ ہمایوں جوگیزئی نے میری ضلع قلعہ سیف اللہ میں دعوت کی اور اپنے شوق کے لیے لگائے ہوئے 500 سو زیتون کے درختوں کے اپنے باغ کا مجھے دورہ بھی کرایا۔ میں نے پوچھا نواب صاحب حکومت بلوچستان نے کیا مدد کی ہے؟ کہنے لگے حکومتی مدد سے توبہ۔ وہ ہم سے مدد نہ مانگ لے۔ میں نے بار ہا محکمہ زراعت بلوچستان کے عہدیداروں کو یہاں کا دورہ صرف اس لئے کروایا کہ وہ اس طریقہ کاشت کو بلوچستان بھر میں متعارف کرائیں۔ لیکن وہ سیر و تفریح سمجھ کر آئے اور چلے گئے۔

بلوچستان کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کی سطح پر 19 تھنک ٹینک کام کر رہے ہیں، ان میں سے ایک بھی بلوچستان سے نہیں ہے۔ کیا ہم سب اینٹ پر اینٹ اور سرِ دست کمیشن کی پالیسی سے نکل کر وہ منصوبے بھی اپنے صوبے میں متعارف کرائیں گے، جس سے عام بلوچستانی مالی طور پر مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ، مالی طور پر خود مختار خوش حال زندگی گزار سکے اور ان کو ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے، کہ وہ یا اس کے بچے سرکاری نوکری کا انتظار کرتے رہیں؟ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہماری آنے والی نسلیں ہم سے ایسے ہی لا جواب کر دینے والے سوالات اٹھاتی رہیں گی اور ہم سارا ملبہ وفاق اور پنجاب پر ڈالتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).