میڈم آمنہ ریاض: طالب علموں کے لیے ایک روشن مینارہ


جامعہ بہاو الدین زکریا کے الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹ منٹ کی ہر دل عزیز شخصیت، جن کے چہرے پہ پھیلی مسکان، بھول پن اور معصومیت کے سحر سے کسی طالب علم کو راہ فرار نہیں، وہ میڈم آمنہ ریاض ہیں۔ اسائن منٹس، کوئز پروگرام اور سیشنل مارکس کی مار دھاڑ سے قطع نظر، آپ تشنگان علم کی انتہائی شفقت و منکسر المزاجی سے راہنمائی فرماتی ہیں۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوا ہو گا، کہ آپ لیکچر کے اوقات پر نہ پہنچ پائی ہوں؛ وگرنہ ایسی ایسی صورت احوال کا سامنا بھی کیا، کہ جب ان کی وہیل چئیر کو اسپورٹ کرنے والی فیملی کی کوئی خاتون ہم راہ نہ ہوتی، تو خود ہی اپنے قلم چلانے والے ہاتھوں کو مشقت دیتے ہوئے تشریف لے آتیں۔

قدرت نے اس قدر روشن چہرہ بنا کر ٹانگیں کم زور کر دیں۔ وہ مالک ہے، ہر کام پہ قادر ہے۔ اس نے جو بہتر سمجھا کیا؛ لیکن شخصیت میں اعتماد، متانت غم گساری، خیر خواہی و رحم دلی کی صفات بدرجہ اَتم موجود ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ طالب علم اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرنے کو قابل فخر سمجھا کرتے تھے، لیکن اب سب پریکٹیکل ہو گئے ہیں۔ سیلف ریسپیکٹ، انا و خود داری جیسے اس جنریشن کو ہی نصیب ہوئی ہے۔ پہلے والوں کو ایسی واہیات باتوں کا کہاں علم تھا۔ جوتے تو درکنار اب اگر کوئی مارے شرم کے، استاد کی کتابیں آفس تک لے جائے، تو اسے چاپلوسی جیسے، کیسے کیسے القابات سے نوازا جاتا ہے؛ اس سے ہم سب واقف ہیں۔ اس سب کے باوجود میڈم آمنہ کی وہیل چیئر کو ان باتوں سے استثناء حاصل رہا۔ کیا طلبا و طالبات، کیا خواتین معلمات تک اسے اپنے لیے شرف سمجھتیں، کہ انھیں اس خدمت کا موقع میسر آئے۔

میڈم آمنہ کی خود داری کا یہ عالم ہے، کہ وہ کسی کو ایسا نہ کرنے دیتیں۔ ماسوائے ڈیپارٹ منٹ میں داخلی ریمپ، جو ضرور انھی کے لیے بنوایا گیا ہو گا، پر چڑھتے وقت۔ وہ ایک ایسی جگہ تھی، جہاں راقم الحروف نے بچشم خود آپ کو پریشان ہوتے دیکھا۔ ایسے لمحات یقینا کسی بھی ذی شعور کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتے ہیں، کہ کیسے کوئی معذوری انسان کو بے بس کرتی ہے۔

وہ چہرے کی الجھنوں اور تکلیف کو حسب عادت، کسی قدر جھنجلاہٹ لیے مسکراہٹ سے پوشیدہ رکھتے ہوئے، تگ و دوو میں مصروف رہیں کہ کسی طرح تین فٹ کی اس ڈھلوان کو عبور کر سکیں، لیکن نا کام رہیں۔ ابھی وہیل چیئر پیچھے کی طرف لڑھکنے ہی لگی تھی کہ اسے تھام کر ڈیپارٹ منٹ کے برآمدے تک لے گیا۔ سچ پوچھیے، اگر یونیورسٹی کے زمانے میں کسی کام پر مسرت ہے، تو وہ اس لمحے سے میسر آئی۔ ایک بار پھر دائمی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے میڈم نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بس اب میں خود اسے چلا کے لے جاؤں گی۔

ایسی تکلیف اس وقت محسوس ہوئی، جب دوران لیکچر بجلی منقطع ہو گئی۔ کسی بات کو وائٹ بورڈ پر لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اس دن ایسا لگا کہ آپ اپنی معذوری سے پریشان ہیں؛ ایسا محسوس ہوا کہ ان کی تکلیف کو لے کر انتہائی شریر کلاس کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ بھلا ہو اطہر رحمان کا جس نے نعرہ مستانہ بلند کیا کہ آج ہم نے نہیں پڑھنا۔ ایسی شرارتوں میں وہی ایک نام تھا، جو زبان زد عام تھا۔ خدا خدا کر کے ماحول سازگار ہوا۔ میڈم اپنی مخصوص نشست پہ براجمان ہوئیں۔ اس کے بعد باقی وقت کی ہم نے رخصت لے لی کہ نہ ہماری ہمت تھی، میڈم سے نظریں ملا سکیں اور نہ ایسا احساس دلانا چاہتے تھے، کہ ان کو یہ معذوری مزید دُکھ دیتی۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد سب غم روزگار کی الجھنوں میں الجھ گئے۔ نفسا نفسی کا سا عالم تھا۔ ایک دن ایک جونیئر ملا، بہت خوش تھا اور میڈم کو دعائیں دیتا رہا، کہ ان کی وجہ سے بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ اس دن معلوم پڑا کہ راہ چلتے دعائیں کیسے لی جاتی ہیں؛ وگرنہ کسے پڑی ہے یہاں کہ خوام خواہ لوگوں کے درد محسوس کرے؛ لیکن انسانیت زندہ ہے، تو معاشروں میں ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کی بدولت۔ اب ہر طرف مشینوں کا سا ماحول ہے۔ کردار سازی کی طرف توجہ کسی کی نہیں، کہ اسے اس مادی دور میں ثانوی حیثیت سے بھی کہیں دور پرے رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں میڈم آمنہ ایک روشن مینارہ ہیں، جن سے روشنی و راہنمائی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی اپنی اسعداد کار کے مطابق اسٹوڈینٹس کو مل ہی جاتی ہے۔ فی الوقت سمجھ نہ بھی آئے تو یہ روشنی لاشعور میں کہیں جا بیٹھتی ہے اور ذندگی میں کسی نہ کسی مقام پر اخلاقیات سے روشناس ضرور کروا دیتی ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ زمانے کی کٹھنائیوں سے لڑتے جھگڑتے، ہماری محسنہ بیمار ہیں۔ آپ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ آپ کے لیے دعا فرمائیں، کہ رب کریم آپ کو صحت کاملہ عطا فرمائے اور الیکٹریکل انجینئرنگ ڈیپارٹ منٹ میں آنے والے سالوں میں آپ کی مسکان سے مزید طالب علموں کو فیض یاب فرمائے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).