الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا


پاکستان ٹیلی وژن پہ بہت عرصہ قبل اک ڈرامہ نشر ہوتا تھا جس میں اک بھلے مانس کردار کا تکیہ کلام تھا۔
”الکمونیا میں تو ایسا نہیں ہوتا“

یہ جملہ وہ اس وقت بولتا جب وہ اپنے ارد گرد ظلم، بد عنوانی اور ناہمواری دیکھتا۔ یہ سیریل کئی ماہ چلی اور اس جملے کا تجسس بھی قائم رہا۔ آخری قسط میں لوگوں کے اصرار پہ وہ سب کو قبرستان لے جاتا ہے اور راز کھولتا ہے کہ یہ الکمونیا ہے۔ یہاں وہ کچھ بھی نہیں ہوتا جو ہماری آباد بستیوں میں ہور ہا ہے۔ قبرستان اِک ابدی حقیقت ہے۔ قبرستان خزانوں سے بھرا پُر اسرار مقام ہے جہاں بڑے بڑے شہنشاہ، پیر، پیغمبر، دانشور، لاڈلے، کج کلاہ، تاجر، معلم، فلسفی، شاعر، سائنسدان اور لیڈر بہت سے راز و نیاز سینوں میں لئے پڑے ہیں۔

وہ بے شمار خداداد صلاحیتوں سمیت زمین اوڑھے بے حس و حرکت سوئے ہوئے ہیں۔ یہاں بے شمار کھوپڑیاں بھی ہیں۔ یہاں تو ایسی ایسی کتابیں پڑی ہیں جو کبھی لکھی نہ جا سکیں یا جنہیں قابل اشاعت نہ سمجھا گیا یہاں بے شمار نغمہ سرائی سے محروم نظمیں بھی ہیں۔ ایسے نغمے ہیں جو گائے نہ جاسکے ایسے نسخہء ہائے کیمیاء جو استعمال نہ ہو پائے۔ یہاں بے شمار آہیں، سسکیاں، حسرتیں، تمنائیں اور شکائیتں دب چکی ہیں جو لبوں تک بھی نہ آسکیں۔

اور جن کا مداوا نہ ہو سکا۔ جنازے کبھی لوٹ کر نہیں آیا کرتے اور خاک اپنے خمیر میں شامل ہو جاتی ہے۔ انسان کی آخری آرام گاہ کا کسی نہ کسی شکل میں تصور ہوتا ہے اور مذکورہ کریکٹر اسی کو الکمونیا کا نام دیتا تھا۔ ا نسان اس دنیا میں چار روزہ، حیات ِمستعار کے ساتھ آتا ہے اور اپنی زندگی کے ماہ وسال اور شب وروز پلک جھپک میں گزار کر ملکِ عدم سدھار جاتا ہے۔ اب وہ لمحات آجاتے ہیں جب اہم ترین افراد اور بڑے بڑے کجکلاہوں کے ا جسادِخاکی کو ٹھکانے لگانے کا انتظام ہونے لگتا ہے۔

دنیا کے مختلف خظوں میں اپنے اپنے انداز سے میت کی آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں آنجہانی کو زمین میں دفنانے کا حکم ہے۔ پارسی میت کو ”مینا رِ خموشاں“ پہ رکھ دیتے ہیں تاکہ گدھ وغیرہ کھالیں۔ ملائیشیا کے اک جزیرے میں مُردوں کو حنوط کر کے دور افتادہ پہاڑوں پر محفوظ کر دیتے ہیں اور اپنی مخصوص تقریبات پر ان کی ممیوں کو اٹھا کر گھروں میں لا تے ہیں اور رسومات کے خاتمے پہ واپس پہاڑوں پہ رکھ آتے ہیں۔

افریقہ کے کچھ قبائل میت پر خوب جشن مناتے ہیں، ناچ کود کر آخری رسومات ادا کرتے ہیں۔ جبکہ جین، بدھ ، سکھ اور ہندو ارتھی کو شمشان گھاٹ لاکر آگ میں جلا دیتے ہیں۔ تاہم جنوبی ہند میں کچھ ہندو ؤں کے ہاں دفنانے کا رواج ہے۔ بھارت اور نیپال کے ہندو کھلی فضا میں دریاوں اور نہروں کے کناروں پہ بنے مرکز پہ لکڑیوں کے ڈھیر پہ تیل ڈال کر لاش جلاتے ہیں۔ آگ میت کا بڑا بیٹا لگاتا ہے اور میت کی راکھ کو بھی اولاد دریائے گنگا میں بہا دیتی ہے۔

بعض ہندو راکھ کھلے میدان میں بکھیرتے ہیں تو کچھ دفن کرکے یادگار بھی بناتے ہیں۔ سکھ اس راکھ کو ستلج میں پھینکتے ہیں اور کچھ اس راکھ کو دفنا دیتے ہیں۔ جاپان، فلپائن اور تائیوان وغیرہ میں میں نوے فیصد لاشوں کو جلایا جاتا ہے اور ہڈیاں ورثاء کے حوالے کی جاتی ہیں۔ چین میں کنفیوشس مت کے پیروکار مردوں کو دفناتے ہیں اور صرف بدھ احتراق کرتے ہیں۔ ہندووں کی ستی کی رسمِ بد میں بیوہ بھی مردہ خاوند کے ساتھ زندہ جلائی جاتی ہے تاہم اب قانونی پابندیوں کے باعث یہ رسم ختم ہوتی جارہی ہے اور 1987 کے بعد ایسا واقعہ نہیں ہوا۔

روم اور یونان میں دفنانا اور جلانا دونوں عمل رائج رہے ہیں۔ عیسائیت نے زور پکڑا تو احتراقِ نعش یعنی لاش کو آگ میں جلانا ممنوع قرار پایا۔ جہاں آبادی میں بے تحاشا اضافہ، زندگی میں رہائش اورخوراک کے گمبھیر مسائل کا موجب بنا ہے وہیں اسی کثیر آبادی نے مرنے کے بعد دفنانے کے لئے زمین کی عدم دستیابی کو بھی بہت بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اب مرنے کے واسطے بھی جگہ نہیں۔ اسی لئے پروٹسٹنٹ فرقے نے احتراقِ نعش کی اجازت دے دی لیکن کیتھولک نے مزاحمت کی۔

دوسری جنگ عظیم میں نازیوں نے ہلاک شد گان کے لئے متعدد بھٹیاں بنائیں۔ 2004 کے سونامی میں تیس لاکھ اموات ہوئیں لہٰذا تعفن اور آلودگی کی وجہ سے کئی مقامات پر اجتماعی احتراقِ نعش کیا گیا۔ اب آسٹریلیا میں بھی جدید بھٹیاں بنائی جا رہی ہے جبکہ یورپین ممالک اور امریکہ میں بے شمارجدید قسم کے کریمیشن سنٹربنائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں بھی کئی شمشان گھاٹ ہیں جہاں ہندو، ارتھی جلاتے ہیں البتہ بیس فیصد ہندو میتوں کو دفناتے بھی ہیں۔

عرب ممالک خاص کر سعودیہ میں عارضی قبروں میں میت دفنائی جاتی ہے۔ کیمیکل کے باعث لاش ڈی کمپوز ہو نے پہ باقیات سمند ر برد کردی جاتی ہیں۔ موجودہ صورتحال کے پیش نظر اسلام کے علاوہ تمام مذاہب میں کسی حد تک کریمیشن کو قبول کرنے کا رجحان نظر آرہا ہے۔ مختلف ممالک میں سینکڑوں جدید کریمیشن سنٹربن رہے ہیں جن میں روائتی شمشان گھاٹ کی طرح دھواں اور آلودگی نہیں ہوتی۔ یہاں لکڑی کی بجائے گیس، تیل، پروپین اور کول گیس استعمال کی جاتی ہے۔

میت کو تابوت میں ڈال کر فرنس میں بند کر کے آٹھ سو سے گیارہ سو سنٹی گریڈ کے ٹمپریچر پہ جلایا جاتا ہے۔ گوشت اورعضلات راکھ ہو جاتے ہیں اور بچنے والی ہڈیوں کو گرائینڈر میں مزید پراسیس کرتے ہیں۔ ایک وقت میں ایک باڈی ہی کریمیٹ کی جاتی ہے۔ یہ عمل ڈیڑھ گھنٹے میں مکمل ہوجاتا ہے اور راکھ ایک مخصوص صراحی میں ڈال کر ورثاء کو دی جاتی ہے۔ اس راکھ میں کیلشیم فاسفورس، منرلزاور سلفر کے عناصر ہوتے ہیں لہٰذا کچھ دہرئیے اسے بطور فرٹیلائیزر بھی استعمال میں لاتے ہیں۔

ہندو ازم میں شمشان کی بابت متعدد دلائل ہیں۔ کہتے ہیں کہ جسم تکبر اور انا کی علامت ہے، یہ روح کو مائل بہ گناہ کرتا ہے، یہ ظالم ہے اس لئے اس کا تعلق جلد از جلد روح سے توڑنا ضروری ہے تاکہ روح اپنی اصل تک جلد پہنچ کر امن پا سکے۔ ان کے مطابق زمین میں دفن کرنے سے روح اور مرنے والے کا روحانی ناظہ دیر تک قائم رہتا ہے جس سے رو ح بے چین رہتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہندوازم میں عقیدۂ آواگون کے مطابق اس دنیا کا جسم اگلے جنم میں دوبارہ نہیں ملے گا بلکہ اعمال کے حساب سے مختلف ہوگا لہٰذا اسے محفوظ کرنے کی ضرورت نہ ہے جبکہ اسلام اور الہامی مذاہب میں یہ جسم دوبارہ ملنے کا عقیدہ ہے۔

کہتے ہیں کہ ان کا طریق زمین کی آلودگی کے موجب فطرت کے قریب تر ہے اور زندہ انسانوں کے لئے زمین پہ بوجھ نہیں بنتا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آبادی میں اضافہ اورشدید آلودگی پوری دنیا کو احتراق نعش یا شمشان پر مجبور کردے گی۔ صد شکر کہ مسلمانوں کو عزت وتکریم کے ساتھ دفنا دیا جاتا ہے بلکہ اس ضمن میں تو ہم اوربھی حساس واقع ہوئے ہیں، بقول شاعر
آنا نہ میری قبر پہ ہمراہِ رقیباں مُردوں کو مسلمان جلایا نہیں کرتے

دنیا کی آبادی خوفناک حد تک بڑھتی جا رہی ہے۔ یہاں نہ صرف زندہ لوگوں کے لئے رہائش کم پڑتی نظر آرہی ہے بلکہ مرنے کے بعد مناسب ابدی آرام گاہ کا حصول بھی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ شہری علاقوں میں قبر کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ کہیں کہیں دو منزلہ قبور بھی بنائی جاتی ہیں۔ اس گمبھیر صورت حال میں بعض ممالک میں زمینی گورستان کی بجائے عمارت کی شکل میں عمودی قبرستانوں کا رواج بڑھ رہا ہے۔ قبروں کے لئے زمین کی دستیابی اور آبادی کے تناسب کے پیش نظر برازیل کے شہر سینٹوس میں 1983 میں ایک بلندوبالا عمارت کی تعمیر شروع ہوئی جو، اب دنیا کی سب سے اونچی قبرستانی عمارت بن چکی ہے اور اس کا اندراج اس حوالے سے گنیز بک آف ریکارڈ میں بھی ہو چکا ہے۔

یہ اک پہاڑ کے دامن میں بتیس منزلہ خوبصورت بلڈنگ ہے جس کی بلندی ایک سو آٹھ میٹر ہے۔ اس کا نام میموریل نیکرو پول ایکو مینیکا ہے۔ اسے کرائے کا قبرستان بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس کے احاطہ میں لان، پارکنگ، چرچ، باغ ایک آبشار اور ریسٹورنٹ بھی ہیں۔ بتیس منزلوں میں متعدد بلاکس ہیں اور ہر بلاک میں ایک سو پچاس مقبرے اور ہر مقبرے میں چھ قبریں بنی ہیں۔ اس بلند قبرستان میں ایک وقت میں 25000 میتوں کی گنجائش ہے۔ یہاں تین سال تک لاشیں کرائے پہ رکھی جاتی ہیں اور تین سال بعد ان کی باقیات ورثاء کے حوالے کرتے ہیں تاکہ حسب منشا ء کسی اور جگہ دفن کر سکیں یا پھر ضائع کرسکیں۔

قبروں کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے ہوا کے گزرنے کے مناسب انتظامات ہیں۔ کچھ قبریں مستقل بھی خریدی جاتی ہیں جن کی قیمت تقریباً پچاس لاکھ پاکستانی روپے ہے جبکہ تین سال کے لئے کرایہ درجہ بندی کے لحاظ سے پانچ لاکھ سے بیس لاکھ تک ہے۔ قبر جتنی اونچائی پہ ہوگی قیمت اسی قدر زیادہ ہوگی۔ امیر لوگ اپنی زندگی میں بھی بکنگ کروا سکتے ہیں۔ یہاں غریب لوگ قبریں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس قبرستان سے کسی بھی اور کاروبار کی نسبت کہیں زیادہ آمدن ہو رہی ہے۔

یہ عمارت برازیل کا بہت بڑا سیاحتی مقام بن چکاہے اور لاکھوں ٹورسٹ اسے دیکھنے جاتے ہیں۔ انڈیا، ر اسرائیل اور دیگر ممالک میں بھی ایسی عمارات بن رہی ہیں۔ تاہم دنیا میں بسنے والے زندہ لوگوں کے لئے لاشوں کی تدفین اک بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے کیونکہ دنیا تو بس مسافر خانہ ہے اور ہمیں اپنی آخری آرام گاہوں میں ہر حال میں جانا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جب زندہ لوگوں کی سب بستیاں مر جاتی ہیں تو قبرستان کی بستی پھر بھی زندہ رہتی ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ جو کچھ بھی ان زندہ معاشروں میں ہو رہا ہے، ویسا کچھ بھی ”الکمونیا“ میں نہیں ہوتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).