ڈاکٹر سلیم اختر اور نشان جگر سوختہ


ڈاکٹر سلیم اختر چل بسے۔ خاموش طبع لیکن ملنسار آدمی تھے۔ برسوں پہلے جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا تو میں اور ڈاکٹر عثمانی صاحب ان سے اظہار افسوس کے لیے گئے۔ کہنے لگے چلے تو سب نے جانا ہے لیکن مجھے افسوس بس ایک ہے کہ اب مجھے ”سلیم“ کہہ کر بلانے والا کوئی نہیں رہا۔

میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ کے بارے میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آپ ادیب بڑے ہیں، نقاد یا نفسیات دان۔ کہنے لگے کہ انہیں کرداروں کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے والے محرکات میں شروع ہی سے دلچسپی تھی بس اسی کی کھوج میں شعور اور لاشعور کی گہرائیاں ماپنے لگے۔ ان کی ایک کتاب ہے شعور اور لاشعور کا شاعر۔ غالب۔ ڈاکٹر صاحب نے غالب کا مطالعہ ڈیفنس میکانزم تکنیک پر کیا ہے اور انہوں نے سمجھایا کہ کسی بھی اہم موقع پر انسان لاشعوری طور پر زندگی کے سامنے سات مختلف طریقوں سے رد عمل دکھاتا ہے جن میں نرگسیت بھی ایک ہے اور پھر وہ غالب کے اس شعر کو نرگسیت کی سب سے بڑی مثال کہتے ہیں، ”چپک رہا ہے بدن پہ لہو سے پیراہن / ہمارے جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے“۔

ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں جب زندگی آپ کی ذات کو مسخ کرنے پر تلی ہو تو آپ کا رویہ مطالعہ کرنے کے لائق ہوتا ہے۔ غالب کو مثال بنا کر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کیسے وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنا آپ دکھاتا ہے اور کہتا ہے، ”جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر“۔ کیسے غالب وقت سے ٹکراتا ہے اور ہر رنگ میں سامنے آتا ہے، ”حباب موجءہ رفتار ہے قدم میرا“ کیسے عارضیت پر سپردگی کا عالم رہتا ہے، ”اے نالہ! نشان جگر سوختہ کیا ہے“۔ نشان جگر سوختہ ڈاکٹر صاحب کی خود نوشت کا نام بھی ہے۔

مجھے بہت حیرت ہوئی یہ سن کر کہ ڈاکٹر صاحب نو برس کی عمر میں کرشن چندر سے خط و کتابت کرتے تھے اور فرماتے ہیں کہ کرشن چندر ان کا جواب دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب افسانہ نگار بھی تھے اور ”انچاس منٹ کی عورت“ کسے یاد نہیں ہوگا۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ سے ہر کس و ناکس مستفید ہوتا رہے گا۔ بڑے بڑے احسان ہیں ڈاکٹر صاحب کے اردو پڑھنے والوں پر۔ ڈاکٹر صاحب پبلک ریلیشنگ پر بالکل یقین نہیں کرتے تھے اسی لیے کبھی کسی فیسٹیول میں، سیمینار میں یا ادبی محفلوں میں نظر نہیں آتے تھے۔

اپنے کام پر تو ادیبوں اور شاعروں کو بہت فخر ہوتا ہے اور بہانے بہانے سے اپنے کام کا ذکر یوں چھیڑتے رہتے ہیں جیسے عاشق صرف اپنی محبوبہ کا ہی ذکر سننے میں دلچسپی لیتا ہے۔ بڑے بڑے نامور ادیبوں میں یہ بیماری بہت عام ہے کہ دوسرے کی بات یوں کریں گے جیسے برہمن کسی نچلی ذات بارے کرتا ہے اور اپنی کتاب کا ذکر چھڑتے ہی باغ و بہار ہو جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر صاحب ہر گز ایسے نہ تھے۔ وہ دوسروں کے کام پر تبصرہ کرتے اور اس کے اعلیٰ ترین پہلوءوں پر روشنی ڈالتے۔ کمزور پہلو بھی دکھاتے لیکن ایک وضعداری کے ساتھ۔ اپنے کام پر بات کرتے ہوئے بھی خود کو گویا غیر تصور کر لیا کرتے تھے۔

ایک بار میں نے ریکارڈنگ پر بلایا اور کچھ دیر ہو گئی۔ ذرا مضطرب تھے لیکن وضعداری ایسی کہ پوچھ نہیں پا رہے تھے کہ کتنا وقت اور چاہیے۔ میں نے خود ہی کہا کہ ڈاکٹر صاحب کچھ کیمرے وغیرہ ٹھیک کر رہے ہیں بس کچھ دیر اور انتظار کر لیں تو بولے انہیں کوئی مسئلہ نہیں سوائے اس کے کہ ان کی بیگم صاحبہ ان کے انتظار میں کھانا نہیں کھائیں گی۔ ریکارڈنگ سے فارغ ہوئے تو کچھ دوسرے ادیب بھی اکٹھے ہوئے اور کڑاہی وغیرہ کا سلسلہ چل نکلا۔

میں ڈاکٹر صاحب کے مزاج سے واقف تھا کہ خاموش اور لیے دیے رہیں گے اور جب تک بیٹھیں گے بیگم صاحبہ کی طرف سے پریشان رہیں گے۔ میں ان کا رکھ رکھاؤ کبھی نہیں بھول سکتا جیسے انہوں نے بیگم سے برسوں کی رفاقت کے بارے بتاتے ہوئے کہا کہ وہ کھانا گھر سے باہر بہت ہی مجبوری میں کھاتے ہیں اور گھر چلے گئے۔ ان کے بیٹے جودت سلیم بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں ڈاکٹر صاحب کی بردباری، نفاست اور وضعداری ان میں بھی جھلکتی ہے۔

میرے لیے ڈاکٹر سلیم اختر اپنے زمانہ طالب علمی اور اسی مناسبت سے اپنے ماضی اور لاہور کی ایک خاص بو باس سے متعلق ہونے کا ذریعہ بھی ہیں۔ رضی عابدی صاحب، ڈاکٹر مبارک علی صاحب، ڈاکٹر سلیم اختر اور قاضی جاوید صاحب اپنے اندر زمانے سموئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کام پر مزید تنقید ہو گی تو سوچ کے کئی در وا ہوں گے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).